درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
بدن پر بھی بال ہی بال ہوگئے، کندھے پر گردن پر سینے پر، بغل میں ہر جگہ بال ہی بال اور مونچھیں بھی اس کی بڑی بڑی ہوگئیں جس پر میرا ایک قطعہ ہے ؎ مونچھوں کے زیرِ سایہ لبِ یار چُھپ گئے یعنی جس لبِ یار کو چوس رہا تھا اس پر بڑی بڑی مونچھیں آگئیں وہاں اب اگر اندھیرے میں منہ لگایا تو منہ میں بڑی بڑی مونچھیں جو آئیں تو سب مزے کرکرے ہوگئے اور ؎ داڑھی کے زیرِ سایہ وہ رخسار چُھپ گئے وہ گال اب نظر بھی نہیں آتے جن پر مرا تھا اور ہر وقت پوچھ رہا تھا ’’تہا ڈاکیہ حال اے‘‘ (یعنی تمہارا کیا حال ہے) اس کے بعد حُسن کا اور زیادہ زوال ہوا تو ؎ بالوں کی سفیدی میں زُلفِ یار چُھپ گئے جتنے تھے یارِ حُسن وہ سب یار چھپ گئے جب مونچھوں کے سائے میں لبِ یار چُھپ گئے اور داڑھی کے سائے میں رُخسار چھپ گئے اور بالوں کی سفیدی میں زُلفِ یار چھپ گئے تو جتنے یارِ حُسن تھے وہ سب یار بھی چُھپ گئے یعنی منہ پھیر کر بھاگ نکلے۔ اس پر میرا ایک شعر ہے ؎ شکل بگڑی تو بھاگ نکلے دوست جن کو پہلے غزل سُنائے ہیں یہ ہے عاشقانِ مجاز کی بے وفائی و خود غرضی اور نفس پرستی۔ تو یونی ورسٹی کے اس لڑکے کا جب حُسن بگڑ گیا اور اس کے سب پرستار بھاگ گئے تو وہاں اس ادیب نے ایک شعر لکھا ہے جو بہت عبرتناک ہے ؎ گیا حُسن خوبانِ دل خواہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا صرف اللہ کا نام اور اللہ کے نام کی لذّت اور اللہ کا نور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے جس کے منہ سے ایک بار اللہ کا نام نکل گیا اس کا نور قیامت تک روح پر باقی رہے گا، اسی کو مولانا فرماتے ہیں۔