درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیمُ الامّت تھانوی کو دس برس تک ایک اشکال تھا مگر حضرت کا ظرف دیکھیے کہ دس برس تک کسی پر ظاہر نہیں کیا کہ میں اس اشکال میں مبتلا ہوں۔ اس لیے کہ بتاکر دوسرے کو کیوں اشکال میں ڈالوں۔ کمال ہے کہ دس سال تک چھپایا۔ بعد میں وہ اشکال مثنوی سے حل ہوا۔ اشکال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ارحمُ الراحمین ہیں اپنی رحمت سے بدونِ مُجاہدہ سب کے نفس کو ولی اللہ بنانے پر قادر ہیں لیکن پھر مُجاہدہ کیوں فرض کیا کہ ہر وقت نظر بچاؤ، یہ کرو وہ نہ کرو۔ اپنے راستے کو اتنا مشکل کیوں کردیا۔ اس کا جواب مولانا نے مثنوی میں دیا ہے۔ لیک شیرینی و لذّاتِ مقر ہست بر اندازۂ رنجِ سفر حضرت کا دس سال کا اشکال اسی شعر نے حل کردیا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ منزل کی لذّت و شیرینی و لطف و آرام کا ادراک سفر کی تکالیف و صعوبات پر موقوف ہے۔ سفر میں جتنی تکلیف ہوتی ہے منزل کا لطف اسی قدر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ کو تھوڑا سا مشکل کردیا اور اپنے بندوں کو تھوڑے مجاہدات سے گزارا تاکہ ان کو جنت کا مزہ خوب آئے اورداخل ہوتے ہی کہیں اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنَّا الْحَزَنَ؎ سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں حزن و غم سے نجات دی لہٰذا اگر حُزْنْ نہ رہے گا تو اَذْھَبَ کیا ہوگا؟ بولیے اگر جنتی دنیا میں حُزْنْ سے نہ گزرتے تو اَذْھَبَ کیسے کہتے ۔ لہٰذا جنت کا مزہ اسی مُجاہدے سے آئے گا۔ مولانا گنگوہی رحمۃُاللہ علیہ نے بُخاری شریف پڑھاتے وقت فرمایا کہ قیامت کے دن جب سب دوزخی دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ پوچھیں گے ھَلِ امْتَلَئْتَ؎ کیا تیرا پیٹ بھرگیا تو دوزخ کہے گی کہ اللہ میرا پیٹ نہیں بھرا تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنا قدم رکھ دیں گے یعنی تجلّی خاص نازل ------------------------------