درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
سخت پیاسی ہےکہ بغیر اللہ کے عاشقوں کی ملاقات کے وہ کہیں چین نہیں پاسکتی۔ اگر مچھلیوں سے کہاجائے کہ پانی میں ناغہ دے کر آیا کرو تو وہ مرجائیں گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دریائے نبوّت کی مچھلی تھے، وہ ناغہ نہیں کرسکتے تھے۔ مولانا فرماتے ہیں ؎ نیست زُرْغِبًّا وظیفہ ماہیاں زانکہ بے دریا ندارند انسِ جاں ناغہ دے کر پانی سے ملاقات کرنا مچھلیوں کا کام نہیں ہے کیوں کہ بغیر پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتیں، بغیر پانی کے وہ اپنی جان سے بے زار ہوجاتی ہیں۔ میر صاحب کا واقعہ ہے، جب اُنہوں نے آنا شروع کیا تو صبح فجر کے بعد آتے تھے اور رات کو جاتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تیسرے دن آیا کرو۔ لیکن ایک ہی دن میں وہ تڑپ گئے اور ایسے پاگل ہوئے کہ بس سے اُتر کر ناظم آباد میں میرے گھر کی طرف بھاگنے لگے۔ راستے میں ایک بوڑھا آدمی جارہا تھا، اس نے جو انہیں بھاگتا ہوا دیکھا تو ایک طرف کو ہوگیا۔ اتفاق سے یہ بھی اُدھر کو ہوئے پھر وہ دوسری طرف ہٹا تو یہ بھی جلدی میں اُدھر کو ہوگئے۔ وہ بے چارہ یا تو یہ سمجھا کہ یہ مجھ سے ٹکرا جائے گا اور میری ہڈی پسلی ٹوٹ جائے گی یا یہ سمجھا کہ کہیں یہ مجھ پر حملہ تو نہیں کررہا ہے تو زور سے چیخا کہ ہائے! مرگیا مرگیا۔ میر صاحب مُعافی مانگتے ہوئے ہنستے ہوئے بھاگتے رہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ میری جدائی ناقابلِ برداشت ہورہی تھی او ردل چاہ رہا تھا کہ جلد از جلد ملاقات ہو۔ لہٰذا مولانا نے اسی لیے فرمایا کہ ناغہ دے کر ملاقات کرنے کا حکم عاشقوں کے لیے نہیں ہے کیوں کہ بغیر محبوب کے ان کی زندگی دُوبھر ہے جیسے مچھلیوں کے لیے یہ ناممکن ہے کہ پانی سے وہ ناغہ دے کر ملاقات کریں کیوں کہ پانی ان کی زندگی کی اساس ہے بغیر پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتیں۔ اسی کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ترا ذکر ہے مری زندگی ترا بھولنا مری موت ہے اسی لیے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانِ عاشق زُرْغِبًّا کی متحمل نہ تھی اس لیے وہ ہمیشہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکھٹ پر پڑے رہتے تھے۔