درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
نیست زُرْغِبًّا وظیفہ عاشقاں سخت مستسقی ست جانِ صادقاں ارشاد فرمایا کہ مولانا کا یہ شعر دراصل ایک حدیثِ پاک کی شرح اور توضیح ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کُنْتُ اَلْزَمَ لِصُحْبَۃِ النَّبِیَّ عَلَیْہِ السَّلَامُ؎ میں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ایک دم چمٹا رہتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ زُرْغِبًّاتَزْدَدْحُبًّا؎ ناغہ دے کر ملو اس سے محبت بڑھتی ہے تو صحابی کا عمل بظاہر اس حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے لیکن اگر یہ جائز نہ ہوتا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوہریرہ کو منع فرمادیتے کہ ہر وقت ہمارے پاس نہ رہا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکیر نہ فرمانا دلیل ہے کہ صحابی کا عمل درست تھا لیکن حکیمُ الامّت تھانوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دونوں حدیثوں میں تطبیق نہیں ہورہی تھی کہ اس کا جواب اور اس حدیث کی شرح مجھے مثنوی کے مذکورہ شعر میں مل گئی۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ نیست زُرْغِبًّا وظیفہ عاشقاں سخت مستسقی ست جانِ صادقاں ناغہ دے کر ملاقات کرنا یہ عاشقوں کا وظیفہ نہیں ہے۔ زُرْغِبًّاتَزْدَدْحُبًّا کا حکم رشتہ داروں کے لیے ہے کہ مثلاً سسرال میں نہ پڑے رہو ورنہ ساس سُسر کہیں گے کہ کہاں سے یہ بے حیا داماد ملاکہ جب دیکھو پڑا رہتا ہے۔ رشتہ داروں کے یہاں روزانہ مت جاؤ، وہاں جاکر ڈیرہ مت ڈال دو ورنہ محبت میں کمی آجائے گی لیکن جو اللہ کے عاشق ہیں ناغہ دے کر ملاقات کرنے کا حکم ان کے لیے نہیں ہے کیوں کہ ان کی جان اللہ تعالیٰ کی ------------------------------