درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
اور بے کسی کا تماشا کائنات کو دکھاتا ہوں کہ تم بے نور ہوجاتے ہو اور کائنات کو روشنی دینے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ پس اے چاند اور سورج! تمہارا نورِ حادث و فانی میرے نورِ قدیم واجب الوجود کے مقابلے میں خفا واستتار، کالعدم اور بے حقیقت ہے۔ اور اے اللہ! اگر آپ سرو کے درخت کو (جس سے شعراء محبوبانِ مجازی کے قد کو تشبیہ دیتے ہیں) فرمادیں کہ اے سرو کے درختو! تم میں ٹیڑھا پن، انحنا، عیب اور کجی ہے کیوں کہ یہ رعنائیِ قد تمہاری ذاتی صفت نہیں ہے، میری عطا ہے اور میری رعنائیِ جمال اور حُسنِ ازلی غیر فانی سے اسے کوئی نسبت نہیں اور گر تو کان و بحر را گوئی فقیر گر تو چرخ و عرش را گوئی حقیر اگر آپ معادنِ سیم و زرا ور مخازنِ لعل و گہر اور معدنیات کے انمول ذخائر اور بحر حاملِ سواحلِ جواہر یعنی اے خُدا! اگر آپ سونے چاندی کی کانوں اور قیمتی موتیوں کے خزانوں اور معدنیات کے انمول ذخیروں اورساحلِ سمندر میں چھپے ہوئے کروڑوں کروڑوں کے موتیوں کو فرمادیں کہ تم سب فقیر اور بھک منگے ہو، اگرچہ تم ایسے غنی ہو کہ دوسروں کو بھی غنی کرتے ہو لیکن چوں کہ یہ صفتِ غنا تمہاری ذاتی صفت نہیں میری بھیک ہے لہٰذا تم فقیر اور بھک منگے حقیر اور ناچیز اور بے حقیقت ہو اور اگر آپ عرشِ اعظم جیسی عظیم مخلوق کو جو ساتوں آسمان کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے، فرمادیں کہ اے آسمانو! اور اے عرش و کرسی! تم سب حقیرمخلوق ہو۔ آں بہ نِسبت باکمالِ تو روا ست ملک و اقبال و غناہا مرتو را ست تو اپنی مخلوقات کو ان تعبیرات سے خطاب کرنا آپ کے کمالات کے پیشِ نظر آپ کو زیب دیتا ہے کہ ملک و سلطنت اور اقبال مندی و غنا آپ ہی کے لیے خاص ہے، کسی اور کو زیبا نہیں کیوں کہ آپ کی ذات قدیم اور واجب الوجود ہے اور مخلوق حادث و فانی ہے۔