رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
میں جو کسی شخص کو اپنے سے بہتر وبرتر دیکھے تو اس کی اقتدا کرے اور دنیاوی اُمور میں اُس شخص کو دیکھے جو اس سے کم تر درجہ کا ہے پھر وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے کہ اس نے اس شخص پر اس کو فضیلت بخشی ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو شاکر (اس لیے کہ اس نے کم تر درجہ کے شخص کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا ہے ) اور صابر ( اس لیے کہ اس نے اپنے سے بالاتر شخص کو دیکھ کر صبر کیا ) لکھ دیتا ہے، اور جو شخص دین میں اس شخص کو دیکھے جو اس سے کم ہے اور دنیا میں اس شخص کو دیکھے جو اس سے بالاتر ہے پھر غم کرے اس چیز پر جو اس سے فوت ہوئی یعنی مال وغیرہ تو اللہ تعالیٰ اس کو صابر اور شاکر قرار نہیں دیتا۔ تشریح:صابروشاکرکرتا ہے یعنی حق تعالیٰ اس پرعمل کرنے والے کو مومنِ کامل کرتا ہے۔؎ حدیثِ مذکور میں تعلیم ہے کہ اُمورِ دنیا میں اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے اور دین کے معاملے میں اپنے سے بہتر انسان کو دیکھے۔ اس کا انعام اور ثمرہ یہ ہوگا کہ اپنے سے کم تر اور غریب کو دیکھ کر اس کو شکر کی توفیق ہوگی اور قلب حسرت اور رنج اور غم سے امن اورسکون میں رہے گا برعکس اگر اپنے سے امیر اور مال دار اور عیش والے کو دیکھتا تو حسرت اور غم سے قلب بے سکون ہوجاتا اور ناشکری سے نعمتِ موجودہ کے زوال کا اور عذابِ الٰہی کا خطرہ الگ۔ اس طرح دین کے معاملے میں اپنے سے زیادہ علم اور عبادت والے کو دیکھنے سے اپنی عبادت سے ناز اور غرور ٹوٹ جاوے گا اور زیادہ عبادت کی حرص پیدا ہوگی ۔ تو عجب اور تکبر سے نجات اور توفیق زیادتئ عبادت کی کس قدر بڑی نعمت ہے ۔ احقر عرض کرتا ہے کہ اس اُصول پر زندگی گزارنے سے رو ح اور قلب کو جو سکون ملتا ہے وہ دنیا کے کسی اُصول سے نہیں حاصل ہوسکتا۔ یہی وہ علومِ نبوت ہیں جو حضرت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کو قوی تر کرتے ہیں کہ اُمّی ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ علم حق تعالیٰ کے سرچشمۂ علم سے منعکس ہوکر ہم تک پہنچا۔ ------------------------------