رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
اس کا رزق اٹھا لیا جاتا ہے ( یعنی رزقِ حلال یا رزق کی برکت اٹھالی جاتی ہے ) اور جو قوم نا حق حکم کرتی ہے ( یعنی اس کے امراء احکام نافذ کرنے میں عدل وانصاف کو ملحوظ نہیں رکھتے اور نا حق احکام جاری کرتے ہیں ) اس میں خونریزی پھیل جاتی ہے اور جو قوم اپنے عہد کو توڑتی ہے اس پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔ تشریح:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گناہوں کی سزا آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی بصورت مصائب ( یعنی بے اطمینانی اور عمر میں کمی، رزق میں تنگی اور آپس میں خونریزی اور ظالم دشمن کا تسلط وغیرہ ) ہوتی ہے، اب کوئی نادان یہ کہے کہ فلاں فلاں رات دن نافرمانی کررہے ہیں اور ان کو دنیا خوب مل رہی ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے دلوں کو ہر گز سکون نہیں۔ ان کی دنیا کا ٹھاٹ باٹ صرف ظاہری جسم پر نظر آتا ہے ان کے قلب ہزاروں غم اور فکرمیں مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تشریح فرماتے ہیں کہ ؎ از بروں چوں گورِ کافر پُر حلل واندروں قہرِ خدائے عز وجل ترجمہ: کافرکی قبر باہر سے بہت پُر رونق ہے مثلاً پھول کی چادر، روشنی کے قمقمے ، بینڈ باجے اور اندر اس کی روح پراللہ تعالیٰ کا قہر ہورہا ہے۔ اورگناہ جس کو موافق آجائے اور پکڑ نہ ہو اور گناہ کے ساتھ دنیا خوب ملے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے، زہر کا ہضم ہونا خطرناک ہوتا ہے اور زہر کا قے ہونا مفید ہو تا ہے پس گناہوں کے ساتھ نعمت نعمت نہیں عذاب ہے، مصیبت ہے، اور جو مصیبت غفلت دور کردے وہ رحمت ہے۔