رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
شہیدہوا تھا سب سے آخر میں تھا۔ میرے دل میں اس سے شبہ پیدا ہوا اور اس کا ذکر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور ان میں سے تو نے کس چیز کا انکار کیا یعنی ان میں سے کون سی ایسی بات تجھ کو نظر آئی جو شبہ اور انکار کا باعث ہوئی، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مسلمان سے زیادہ بہتر کوئی شخص نہیں ہے جس نے اسلام میں زیادہ عمرپائی اور اس کو زیادہ تسبیح وتکبیر وتہلیل کا موقع ملا۔ تشریح:اس حدیث کا مطلب وہی ہے جو پہلے بیان کیا جاچکا ہے حدیث بن خالد میں۔ یعنی دوسرا شخص جو شہید تو نہ تھا مگر وہ مرابط تھا یعنی سرحد کا نگہبان اور شہید ہونے کی نیت رکھتا تھا تو اپنی نیت کا ثواب شہادت بھی ملا اور جتنے دن زندہ رہا ان دنوں کے نیک اعمال کا ثواب الگ ملا۔ اس لیے یہ افضل رہا سابق سے ۔ 118۔وَعَنْ مُّحَمَّدِ ابْنِ اَبِیْ عَمِیْرَۃَ وَکَانَ مِنْ اَصْحٰبِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ عَبْدًا لَوْ خَرَّ عَلٰی وَجْھِہٖ مِنْ یَّوْمٍ وُّلِدَ اِلٰی اَنْ یَّمُوْتَ ھَرَمًا فِیْ طَاعَۃِ اللہِ لَحَقَّرَہٗ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَوَدَّ اَنَّہٗ رُدَّ اِلَی الدُّنْیَا کَیْمَا یَزْدَادَ مِنَ الْاَجْرِ وَالثَّوَابِ۔ رَوَاھُمَا اَحْمَدُ؎ ترجمہ:حضرت محمد بن ابی عمیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اگر کوئی بندہ پیدایش کے دن سے بوڑھا ہو کر مرنے تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت وعبادت میں سرنگوں رہے تو وہ البتہ اپنی اس عبادت واطاعت کو قیامت کے دن حقیر خیال کرے گا اور یہ آرزو کرے گا کہ اس کو پھر دنیا میں واپس کردیا جائے تاکہ اس کا اجر وثواب زیادہ ہوجائے۔ تشریح: یعنی جب اپنی عبادتوں کا ثواب اور انعام اپنے رب کی طرف سے دیکھے گا تو تمنا کرے گا کہ اور زیادہ عبادت کے لیے دوبارہ زندگی عطا فرما کر پھر دنیا میں بھیج دیا جاوے۔ ------------------------------