ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
مَالِک اَنَّہ' بَلَغَہ' اَنَّ رَجُلًا قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ اِنِّیْ طَلَّقْتُ امْرَأَتِیْ مِائَةَ تَطْلِیْقَةٍ فَمَا ذَا تَرٰی عَلَیَّ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ طُلِّقَتْ مِنْکَ بِثَلٰثٍ وَّسَبْع وَّ تِسْعُوْنَ اتَّخَذْتَ بِھَا آیَاتِ اللّٰہِ ھُزُوًا۔ ١ ''حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ اِنہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں،اِس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں(آیا میری بیوی پر طلاق پڑ گئی یا نہیں؟) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:وہ عورت تین طلاقوں کے ذریعہ تم سے جدا ہو گئی اور جو ستانوے طلاقیں باقی بچیں اُن کے ذریعہ گویا تم نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا مذاق اُڑایا۔'' ان اَحادیث مبارکہ کے علاوہ اور بھی بہت سی اَحادیث اور آثارِ صحابہ و تابعین موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں،یہی جمہور صحابہ، تابعین،تبع تابعین، ائمہ اَربعہ امام ابوحنیفہ، امام مالک،امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہم اور جمہور محدثین بشمول امام بخاری کا موقف و مسلک ہے،چند مٹھی بھر حضرات کا کہنا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں،اہلِ سنت والجماعت نے اُن کے اس موقف کا اعتبار نہیں کیا اس لیے تمام اہلِ سنت کو چاہیے کہ وہ اِس مسئلہ میں جس کا تعلق حلال و حرا م سے ہے ،جمہور اہلِ سنت کے موقف کو اپنائیں اور اِن مٹھی بھر اَفراد کی طرف رجوع نہ کریں کیونکہ اِن حضرات کے پاس اپنے موقف کے اِثبات میں کوئی مضبوط دلیل نہیں اور جو دلیلیں پیش کرتے ہیں اُن سے اِن کا موقف ثابت نہیں ہوتا،اس موضوع پر تفصیل کے لیے''عمدة الاثاث فی حکم الطلقات الثلٰث'' مصنفہ حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدر کا مطالعہ مفید رہے گا۔ ------------------------------ ١ مؤطا امام مالک ص٥١٠ ، مشکٰوة ص ٢٨٤