اورحضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’جو شخص میری خبر سن لے خواہ یہودی ہو یا نصرانی، پھر وہ ایمان نہ لاوے، ضرور دوزخی ہوگا‘‘۔
یہ تو قولی حجت ہے۔ اب عملی دلیل سنیے حضور نے قیصرِ روم، کسریٰ فارس، ونجاشیٔ حبشہ ومقوقسِ مصر کے پاس فرمانِ مبارک اسلام لانے کے لیے اور درصورت مسلمان نہ ہونے کے اُن پر گناہ ووبال کے لکھ لکھ کر بھیجے، اگر آپ کی بعثت خاص ہوتی، آپ ایسا امر کیوں فرماتے، اب نصوص کے بعد اس میںکیا تردد ہوسکتا ہے کہ آپ جمیعِ خلق کی طرف مبعوث ہوئے ۔
اب جو امور مخاطبِ عزیز کے اس خیال کے اسباب ہیں ان کی نسبت لکھتا ہوں۔
امر اول: وموجبِ شبہ اس زمانے کے عرب اپنی زبان میں فصیح وبلیغ تھے، ان کے لیے قرآن زبانِ عربی میں نازل ہوا، جس سے ان کو یقین ہوا کہ وہ کلامِ بشر نہیں فقط۔ عزیزِ من! اول تو علاوہ کلام اللہ حضور کے معجزات ہزاروں ہیں، جن کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے، اگر کلام اللہ کو نہ سمجھا کوئی حرج نہیں۔ پھر یہ کہ جب ایک قوم نے بعد ہزاروں مخالفت کے آپ کو مان لیا۔ دوسروں کے لیے صرف یہ امر کافی ہے کہ جو لوگ اس فن کے ماہر ہیں، اور وہ مقابلے سے عاجز ہوگئے، ضرور یہ کلام معجزہ ہے، پس معجزہ قرآنی بایں معنی عام ہوگیا۔
امرِ دوم: موجبِ شبہ تمام عمر جناب رسولِ خدا ﷺ اس قوم میں رہے، اور جب ان کی تکمیل ہوگئی وفات فرمائی فقط، میں کہتا ہوں: یہ کیا ضرور ہے کہ جو شخص جماعت کی اصلاح کے لیے بھیجا جاوے وہ ہر شخص کے پاس جایا کرے، ورنہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ عرب میں بھی جن بستیوں میں آپ تشریف نہیں لے گئے وہ بھی آپ کے دائرۂ نبوت سے خارج ہوں، اگر کہا جاوے کہ ملکِ عرب سب ایک ملک ہے، ہم کہیں گے: سب زمین عالم کی ایک زمین ہے، اگر آپ ہرجگہ تشریف نہیں لے گئے تو آپ کے فرمانِ مبارک تو جابجا پہنچے، جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے، اور تکمیلِ عرب کے بعد وفات فرمانا یہ بھی کوئی حجت نہیں، اگر کوئی حکیم مصلح کسی خاص بستی کی اصلاح کے لیے بھیجا جاوے، اور پچاس سو لائق آدمیوں کی تکمیل کرکے، اور باقیوں کی تکمیل ان کے حوالہ کرکے واپس چلا جاوے، کیا یوں کہا جاوے گا کہ بس جن کی تکمیل ہوئی ان ہی لوگوں کی اصلاح مقصود ہے؟ یا یوں کہیں گے کہ اصلاح سب کی مدِنظر تھی، مگر بعض کی تکمیل سے سلسلۂ تکمیل کا جاری ہوگیا، اس لیے اب رہنے کی ضرورت نہ ہوئی۔
امرِ سوم: موجبِ شبہ دیگر اقوام نے آپ کے قرآن کو اس بنیاد پر نہ مانا جس پر عرب نے مانا تھا، بلکہ ان لوگوں کو عرب نے بزورِ شمشیر زیر کیا، اور ان کو زبردستی مسلمان کیا إلخ میں کہتا ہوں قرآن مجید کا معجزہ عام ہونا اوپر ثابت ہوچکا ہے، سو جب حق واضح ہوگیا اس کی مخالفت عقلاً کسی کو جائز نہ ہوئی، اس لیے قانونِ اسلام نے مزاحم ومخالف کی قوت کو گوارا نہ