دینیات سے خارج کیوں کر دیا جاوے، اگر تمام جہان بدپرہیزی کرنے لگے تو علمِ طب کا ایک حصہ اس بنا پر خارج کردینا چاہیے کہ اس کے موافق کوئی عمل تو کرتا نہیں پھر کیا فائدہ؟
رہا یہ سوال کہ طالب علموں کو ان جرائم کی سزائے شرعی پڑھانے سے کیا فائدہ؟ اس کا ایک فائدہ تو اوپر ذکر کرچکا ہوں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ بدونِ تعلم وتعلیم کے بقائے علم ممکن نہیں، اگر یہ سلسلہ منقطع ہو جاوے تو قطعاً اس جزوِ دین کا علم مفقود ہو جاوے، پھر اگر کسی وقت اس کی ضرورت پڑے تو بتلانے والے کہاں سے آئیں گے؟ اور اگر ایسا ہی حذف کرنا ہے تو سب سے اول قرآن مجید میں اختصار کرنا چاہیے کہ سب علوم کی جڑ وہی ہے، کیوں کہ جب ان احکام پر عمل نہیں ہوتا تو پھر ان آیات سے کیا فائدہ، پھر خدانخواستہ اگر کسی موقع پر نماز روزے سے ممانعت ہو جاوے تو وہ آیتیں بھی کم کردی جاویں کہ یہ سب بے فائدہ ہیں، پھر نعوذ باللہ اگر مسلمان رہنے کی اجازت نہ رہے تو وہ آیتیں بھی نکال دی جاویں کہ یہ بھی بے فائدہ ہے، غرض! اس طرح تو سارا اسلام اور قرآن سب بے کار ٹھیرتا ہے، الٰہی توبہ۔
اس کے بعد جو تنگ ہو کر مسلمانوں کو دعائے خیر دی ہے کہ اللہ میاں اس جہان سے ان کو اٹھالیں تو ان کی نجات ہو، عزیزِ من! آپ نے تو یہ طعن سے لکھا ہے، مگر اتفاقی بات ہے کہ قلم سے سچا مضمون نکل گیا۔ واقع میں اس وقت اسلامِ خالص پر قائم رہنا اس قدر مشکل ہے، جیسا پیغمبر ﷺ نے فرمایا ہے کہ:
’’ایسے زمانے میں اسلام پر قائم رہنا اس قدر دشوار ہوگا جیسے چنگاری کو مٹھی کے اندر بند کرنا‘‘۔
اور اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’ایسے آشوب کے زمانے میں جو شخص دین پر عمل کرے گا اس کو پچاس صحابی کے برابر اجر ملے گا‘‘۔
اور اس میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’آج وہ زمانہ ہے کہ ظاہرِ زمین بطنِ زمین سے بہتر ہے، یعنی حیات، اور ایک وقت آوے گا کہ بطنِ زمین ظاہرِ زمین سے بہتر ہوگا، یعنی موت‘‘۔
کوئی شک نہیں اس فتنے کے زمانے میں اگر کوئی شخص اپنا دین لبِ گور تک سلامت لے جاوے اس نے بڑا کام کیا۔ یا الٰہی مدد فرمائیو، ایمان پر خاتمہ کیجیو۔
اس کے بعد چھوٹے معاملات کو اردو کی کتابوں میں مقید اور عبادت کے باب کو نہایت مختصر کیا گیا ہے، جس طرح مخاطبِ عزیز نے علما پر بے خبری واقعاتِ دنیا کا حکم لگایا ہے، اس مضمون سے مخاطبِ عزیز پر بے خبری واقعاتِ دینیہ کا حکم لگایا جانا صحیح ہے۔ عزیزِ من! دین پر عمل کرنے والوں کی عبادات ومعاملات میں جو نئی نئی صورتیں روزانہ پیش آتی ہیں ان کا احصا وشمار کرنے کا قصد کیا جاوے ممکن نہیں، اور ہر صورت کے متعلق جداگانہ حکم، جب صورتیں خارج از شمار ہیں تو ان کے