آگے جو لکھا ہے کہ زنا سے سنگ سار نہیں ہوتے، چوری سے ہاتھ نہیں کٹتے، اس سے یہ کہاںلازم آیا کہ معاملات خارجِ دین ہوگئے، یا جو کچھ اب ہو رہا یہ سب جائز ہے، اس کا جو حکمِ شرعی تھا کہ رجم وقطعِ ید واجب ہے، وہ اب بھی بحالہ محفوظ ہے، خواہ قدرت نہ ہونے کی وجہ سے اس پر مسلمان عمل نہ کرسکیں، اس میں عاصی ہوں یا معذور ہوں یہ دوسری بحث ہے، اس
سے علمِ معاملات کا واجب التحصیل نہ ہونا کس طرح لازم آیا؟ علمِ دین کی تکمیل کے لیے تو اب بھی اس کے مسائل کا معلوم کرنا واجب وفرض ہے، اگر یہ شبہ ہو کہ پھر اس کا نفع کیا؟ سو نفع اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا علمِ صحیح ہو جاوے، یہ نہ سمجھے کہ اس میں سزائے جرمانہ وجیل کافی ہے۔
اس کے بعد جو صورت فرض کی ہے، وہ ذرا نازک ہے، مگر اس میں بھی کلام کرنا چاہتا ہوں۔ زنا کی نالش ایک دعویٰ ہے، اور عند الحاکم اس دعوی کے لیے گواہ کی ضرورت ہے، اور گواہ ہونے چاہییں چار، اور جو جو اس کی شرائط کتبِ دینیہ میں مذکور ہیں وہ سب مجتمع ہونا چاہیے، پھر خود اس کے صریح طور پر دیکھنے سے بھی احکام کا بھی فرق ہو جاتا ہے، اور اس عورت کی زوجہ وخواہر ومادر ہونے کی اعتبار سے بھی اختلافِ احکام ہو جاتا ہے۔
میں سب کی تفصیل1 لکھتا، مگر بخوفِ تطویل سب کو حذف کر کے اتنا لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ فی الواقع جن صورتوں میں شریعت نے دعوے کی اجازت نہیں دی، دعویٰ کرنا حرام اور سخت معصیت ہے، اور اگر دعویٰ کیا، بلاشک یہ شخص معین ہوگا حکم مخالفِ شرع کا۔ رہا یہ شبہ کہ پھر کیا کرے؟ کیا خاموش ہوکر بیٹھ رہے؟ میں پوچھتا ہوں کہ اگر بالفرض اس کو کوئی گواہ معاینے کا میسر نہ ہو، اور کوئی شخص جھوٹی گواہی پر رضا مند نہ ہو، تو اس وقت میں پوچھتا ہوں کہ یہ شخص کیا کرے؟ جو اس سوال کا جواب ہے، وہی عزیزِ مخاطب کے سوال کا جواب ہے، اور جس صورت میں دعویٰ کرنا جائز ہو بے شک وعویٰ کرے۔
رہا یہ امر کہ حکمِ قانونی خلافِ حکمِ شرع ہے، اور یہ شخص اس کا معین ہے، سو جو سزا اس میں قانون ہے وہ شرعاً تعزیر ہے، اور جو سزائے شرعی ہے وہ حد ہے، اور تعزیر بہ نسبت حد کے خفیف ہے، سو جو شخص اس مجبوری سے کہ اس کا پورا حق نہ ملے گا اپنا پورا حق چھوڑ کر جزوِ حق کا دعویٰ کرے، اور وہ اس کو دیا جاوے، تو اس مدعی کو کیوں گناہ ہوگا؟ اس نے کون سی مخالفت شریعت کی کی؟ جس شخص کے ہزار روپے کسی کے ذمہ واجب ہوں، مگر پانسو کی تو میعاد گزر گئی، اس لیے اس کے وصول سے مایوسی ہے، پانسو تازہ قرض تھا، اس کی ڈگری ہوگئی، تو اس صورت میں حاکم پر جو کچھ بھی الزام ہو مگر اس شخص پر کوئی معصیت نہیں، نہ اس نے کوئی مخالفت شرع کی کی، نہ مخالفت کی اعانت کی، مگر قطعِ نظر اس سب امور کے یہ علم