حضور اقدس ﷺنے یہ فرمایا کہ علم سے مومن کا پیٹ نہیں بھرتا لفظ مومن میں یہ بتایا ہے کہ علمی حرص کے لئے عالم یا اصطلاحی طالب علم ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر مومن کو علم دین کا حریص ہونا چاہیے۔
جس علم سے دنیا سنورتی اور ترقی پاتی ہے وہ بھی تحصیل دنیا ہی میں شامل ہے میٹرک سے لے کر بی اے، ایم اے ، بی اے ، بی ٹی پی ایچ ڈی وغیرہ کی ڈگریوں کی طلب وتحصیل میں بڑی بڑی دولتیں اور لمبی لمبی عمریں خرچ کی جاتی ہیں گو یہ خرچ علم کے نام پر ہوتا ہے تحصیل جنت کے لئے نہیں بلکہ تحصیل دنیا کے لئے ہوتا ہے جس کی ایمان اور مومن کے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں غیر مومن بھی یہ ڈگریاں حاصل کرتے ہیںاور دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں گویا لفظ مومن سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جس علم کی حرص مومن کی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے اس سے وہ علم مراد ہے جس کا ایمانیات سے تعلق ہو اس لئے لن یشبع المومن من خیر فرمایا یعنی علم کی جگہ لفظ خیر استعمال ہوا ہے اور معلوم ہے کہ قرآن وحدیث کی اصلاح میں لفظ خیر آخرت میں کام آنے والی چیزوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔
کسب دنیا کی نیت سے بہت سے لوگ یونیورسٹیوں کے مروجہ مولوی عالم کے امتحانات دے کر اسکولوں اور کالجوں کی ملازمتیں حاصل کرلیتے ہیں اور چونکہ ذرا بہت دینیات کا حصہ بھی کورس میں شامل ہوتا ہے اس لئے اپنے متعلق یہ خیال خام قائم کرلیتے ہیں کہ ہم علماء ہیں دینی بصیرت تفقہ مسائل، تفقہ فی الدین سے عموماُ عاری ہوتے ہیں ڈگری پر ڈگری حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور مدارس دینیہ میں بیٹھ کر خدمت دین کے لئے تیار نہیں ہوتے اسکول وکالج کی ملازمت کے لئے پریشان پھرتے ہیں جس نیت سے پڑھا اسی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔
طلب علم کے لئے سفر کرنا
(۲۱) {وعنہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من خرج فی طلب العلم فہو فی سبیل اللہ حتیٰ یرجع} (رواہ الترمذی)
’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے نکلا وہ واپس لوٹنے تک اللہ کے راستہ میں ہے‘‘
یعنی جو مسلمان علم دین حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر سے نکلا وہ جہاد کرنے والے کے مرتبہ میں ہے کیونکہ جس طرح دشمنانِ دین سے جنگ کرنے والا میدان جہاد میں پہنچتا ہے اور زورِباطل کو دبانے کے لئے گھر چھوڑ تا اور سفر کی دقتیں ومشقتیں برداشت کرتا ہے جان ومال آرام وراحت کو خداوند قدوس کی رضا مندی کے لئے بے دریغ قربان کردیتا ہے