شمار ہیں اس عالم میں جب تک حضور اقدس ﷺسے نسبت رکھنے والے علوم واعمال اشخاص وافراد موجود ہیں اسی وقت تک یہ دنیا بھی قائم ہے جب ایک متنفس بھی آپ ﷺسے نسبت رکھنے والا نہ رہے گا اس وقت دنیا ومافیہا کی بقاء خطرہ میں پڑ جائے گی اور عنقریب ہی قیامت قائم کردی جائے گی جس کی وجہ سے دنیا اور دنیا کی لذتیں اور نعمتیں نیست ونابود ہوجائیں گی (لاتقوم الساعۃ علی احد یقول اللہ اللہ) ہر مسلم ومومن فاجر وکافر، ملحد وزندیق، منافق ومنکر نبی الرحمۃﷺکی بدولت جی رہا ہے اور لذتوں ونعمتوں سے مستفید ہے دنیا میں جس قدر بھی علوم ومعارف، اعمال واشغال، اورادو اذکار، عبادتیں ریاضتیں ہوتی ہیں سب کا منبع اور مرکز آنحضرت ﷺہی کی ذات گرامی ہے ہر عابد وزاہد، راکع وساجد، قانت ومطیع کے لئے ضروری اور فرض ہے کہ حضور اقدسﷺ سے اپنا رشتہ جوڑے، اور آپ ﷺکے علمی وعملی سخاوت کے سمندرناپیدا کنار سے مستفید ہو جس نے آپ ﷺ دامن چھوڑا اس کی ہر محنت ضائع اور رائگاں ہے۔
میدان حشر میں حضور اقدسﷺ کی سخاوت شفاعت کبرٰی کی صورت میں ظاہر ہوگی جس کا دائرہ ہر اچھے برے کو شامل ہوگا پھر جنت کا دروازہ بھی آپ ﷺ ہی کھلوائیں گے اور اس کے بعد جس کو اللہ تعالیٰ داخل فرمائیں گے داخل ہوتا جائے گا، (انا اول من یفرع باب الجنۃ)
پھر حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد وہ شخص سب سے بڑا سخی ہے جس نے علم حاصل کیا پھر اس کو پھلایا چونکہ یہ شخص علم میں بھی آنحضرت ﷺ کا وارث ہوا اور علم کے پھیلانے اور پہنچانے میں بھی آپ ﷺ کی نیابت کے فرائض انجام دیئے اس لئے بڑے سخی کا نائب ہے ظاہر ہے کہ بڑا سخی ہوگا جن حضرات کی تعلیم وتبلیغ تصنیف وتالیف سے عالم مستفید ہورہا ہے بلکہ انہی کے دم سے اس عالم کی بقاء ہے اہل دنیا ان کو نظر میں بھی نہیں لاتے اور یاکار مغرور دولت مندوں کے حقیر ترین مصارف کو دیکھ کر بڑی مدح سرائی کرتے ہیں۔
حدیث شریف کے آخر میں ہے کہ علم پھیلانے والا قیامت کے دن ایک امت کے برابر ہوگا اس کی ذات سے ہزار ہا افراد کو علمی وعملی نفع پہنچا اس واسطے اس کی حیثیت پوری ایک جماعت کے برابر ہوگی اس کی تعلیم وتبلیغ کی وجہ سے جن لوگوں نے علم سیکھا اور عمل کیا ان سب کا ثواب بھی پائے گا اس لئے کثیر جماعت کے ثواب کا حق دار ہوگا (اللہم اجعلنی منہم)
علماء اور حفاظ شفاعت کرینگے
(۶۱) {وعن عثمان بن عفان ؓقال قال رسول اللہ ﷺ یشفع یوم القیٰمۃ ثلٰثۃ الانبیاء ثم العلماء ثم الشہداء } (رواہ ابن ماجۃ)