اس نکتہ کی خصوصیت کے ساتھ ہم نے اس لئے واضح کیا ہے کہ عموماُ اہل زمانہ جب کسی عالم کی ذرا سی لغزش دیکھتے ہیں تو فوراً بول اٹھتے ہیں کہ فلاں عالم صاحب جانتے ہوئے بھی بے عمل ہیں اس سے نہیں ڈرتے حالانکہ اعتراض کرنے والے بھی جو کچھ جانتے ہیں اس کی جواب دہی سے غافل ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم سے تو لا علمی میں گناہ ہوجاتے ہیں اور علماء تو جانتے ہیں وہ کیوں بے عمل ہیں جواب یہ ہے کہ آپ جن احکام کو جانتے ہیں انکی خلاف ورزی کرنے میں تو بے عمل عالم اور آپ برابر ہیں اور جن احکام کی خلاف ورزی علم نہو نے کی وجہ سے آپ کرتے ہیں ان کے متعلق تو آپ دو سوالوں کا جواب دینے کے لئے تیار رہیں ایک یہ کہ احکام ومسائل کیوں نہ معلوم کئے جاہل کیوں رہ گئے اور دوسرا سوال یہ کہ احکام کی خلاف ورزی کرکے مرتکب گناہ کیوں ہوئے؟ لا علمی عذر نہیں ہے جو گناہ کی پاداش سے بچا لے علماء کو صرف ایک ہی سوال کا جواب دینا ہوگا یعنی صرف عمل کا اور جاہلوں سے دوہرا سوال ہوگا۔
قرآن شریف سیکھنا سکھانا
(۲۷) {وعن عثمان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ} (رواہ البخاری)
’’حضرت عثمان سے روایت ہے کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘
قرآن شریف چونکہ شہنشاہ مطلق مالک الملوک اور خالق الکل کا کلام اس لئے تمام کلاموںسے افضل ہے اور جب کلامِ برتر ہے تو معانی بھی بلند تر ہیں نیز الفاظ ومعانی کی بلندی کے ساتھ قرآن شریف تمام انسانوں کے لئے خدا کی طرف سے وہ دستور اساسی ہے جس کے احکام کی تعمیل میں سب سے بڑی کامیابی یعنی رضائے حق اور دخول جنت موقوف ہے کسی انسان میں گوشت وپوست سے بڑائی اور برتری اور فضیلت نہیں آتی ہے بلکہ اس کے بلند اعمال پاکیزہ اشغال سے اور زندگی بھر جسم وروح کی محنتوں کو فضیلت والے کاموں میں لگانے سے حاصل ہوتی ہے پھر جس قدر اعمال واشغال اور محنتوں کا فرق ہوتا ہے اسی قدر انسانوں میں آپس میںایک دوسرے پر فضیلت اور فوقیت کا فرق ہوتا ہے چونکہ قرآن شریف اس ذات پاک کا کلام ہے جو سب سے برتر اور اکبر ہے اور اللہ کی کتابوں میں سب سے افضل ہے اور افضل الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر افضل الاحم کی ہدایت کے لئے نازل ہوا، اس لئے جو بھی مسلمان اس کے پڑھنے پڑھانے کا مشغلہ رکھے گا ظاہر ہے کہ سب سے بہتر اور افضل ہوگا۔
پڑھنے پڑھانے کے عموم میں قرآن شریف کے الفاظ اور معانی دونوں کا پڑھنا پڑھانا آگیا آج کل کے نئے مجتہدین قرآن شریف کے الفاظ کی تعلیم کو بے سود سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بے سمجھے پڑھنے میں فائدہ کیا ہے، میں پوچھتا ہوں کہ آپ