پہلے حافظ صاحب تو ٹھیک ہوں وہ تو ڈاڑھی منڈواتے یا کٹاتے ہیں تراویح میں قرآن سنا کر رقمیں وصول کرتے ہیں نماز تک کا اہتما م نہیں کرتے۔
قرآن شریف خود بھی قیامت کے روز سفارش کرے گا لیکن جنہوں نے اس کے احکام کو پسِ پشت ڈالا اور اس کے حقوق کی حفاظت نہ کی ان پر دعویٰ کرے گا اور حقوق ضائع کرنے کی پاداش میں دوزخ میں گرادے گا (القرآن حجۃ لک او علیک)
حضرت جابرؓسے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ القرآن شافع مشفع وما حل مصدق من جعلہ امامہ قادہ الی الجنۃ ومن جعلہ خلف ظہرہ ساقطہ الی النار (ابن حبان وغیرہ)
’’قرآن ایسا سفارش کرنے والا ہے جس کی سفارش قبول کی جائیگی اور ایسا مدعی ہے جس کا دعویٰ تسلیم کیا جائے گا جس نے اسے اپنے آگے رکھا (یعنی پیشوا بنا کر اس کے احکام کی تعمیل کی) اس کو جنت کی طرف کھینچے گا اور جس نے اس کو پشت کے پیچھے ڈالا اسے دوزخ میں گرادے گا‘‘
قرآن شریف کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے اور یہ بھی ہے کہ اس کے احکام پر عمل کیا جائے قرآن نے جن فرائض کا حکم دیا ہے ان کو ترک کریں اور جن کاموں کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے ان سے باز نہ آئیں اور پھر بھی یہ امید رکھیں کہ قرآن سفارش کردے گا یہ جہالت اور بے جا امید ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ :
ما آمن بال قرآن من استحل محارمہ (مشکوٰۃ شریف)
’’وہ قرآن پر ایمان نہ لایا جس نے قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلیا‘‘ (مشکوٰۃ شریف)
اگر عقیدے سے حلال کرلیا تو کافر ہی ہوگیا اور اگر عمل سے حلال کرلیا یعنی بے تحاشا حرام کاموں کا ارتکاب کرنے لگا تو مومن کامل نہ رہے گا جبکہ قرآن کے خلاف چلنے والے کا ایمان ہی ناقص ہو تو کس منہ سے شفاعت کی امید ہے؟
مسجدوں میں ذکر وعلم کے حلقے
(۷۱) {وعن عبد اللہ بن عمروؓ ان رسول اللہ ﷺ مر بمجلسین فی مسجدہ فقال کلاہما علی خیر واحدہما افضل من صاحبہ اما ہو لاء فیدعون اللہ ویرغبون الیہ فان شاء اعطاہم وان شاء منعہم واما ہو لاء فیتعلمون الفقہ او العلم ویعلمون الجاہل فہم افضل وانما بعثت معلما ثم جلس فیہم} (رواہ الدارمی)t
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺکا گذر اپنی مسجد میں دو مجلسوں پر ہوا ایک مجلس ذکر تھی اور دوسری مجلس علم ان کو دیکھ کر آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ دونوں (مجلسیں ) اچھے کام میں مشغول ہیں (مگر ) ایک مجلس دوسری سے افضل ہے یہ لوگ یعنی حلقہ ذکر ودعاء والے اللہ سے مانگ رہے ہیں اور اس کی طرف راغب ہورہے ہیں سو اگر اللہ چاہے تو ان کو دیدے اور چاہے تو نہ دیوے، اور یہ لوگ (یعنی معلمین ومتعلمین) علم سیکھ رہے ہیں اور انجان کو سکھارہے ہیں پس یہ ان (ذاکرین) سے افضل ہیں اور میں معلم