دھیان جاتا ہے، حضور اقدس ﷺنے تنبیہ فرمائی ہے کہ جس علم کا تعلق احکام خداوندیہ کے جاننے اور ان کی تعمیل کے طریقوں کے پہچاننے سے وہ علم صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے مخصوص ہے یہ کونسا علم ہے؟ سب جانتے ہیں کہ یہ علم قرآن وحدیث اور ان علوم کے متعلقات ہیں، قرآن شریف حفظ وناظرہ، تجوید، قرأۃ ترجمہ وتفسیر، حدیث کے الفاظ ومعانی، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، مسائل وفتاوٰی ان سب علوم کو صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیے حاصل لازم ہے۔
ان علوم کی نسبت احکام خداوندیہ سے ہے جس نے ان علوم کو دنیاوی سازو سامان، مال ومتاع حاصل کرنے کے لیے سیکھا، اس نے اپنا بہت بڑا نقصان کیا، محنت و مجاہدہ ضائع کیا، آخرت کے اجور اور درجات سے محروم رہا، حضور اقدس ﷺفرماتے ہیں کہ ایسا شخص جنت میں تو کیا جایے گاجنت کی خوشبو بھی اسے نہ پہنچے گی۔
علوم دینیہ صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیے حاصل کرنا چاہیے اور بعد میں معاش کے لیے کوئی ذریعہ اختیار کرتے ہوئے تعلیم وتبلیغ میں مشغول رہیں، اور اگر دوسرا مشغلہ اختیار کرنے میں تعلیمی خدمات کی انجام دہی میں فرق آتا ہو اور طالب علموں اور شاگردوں کا نقصان ہوتا ہو تو توکلا علی اللہ تعالی دینی خدمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور امت کی طرف سے جو کچھ ملے صبروشکر کے ساتھ اسی پر بس کریں مگر نہ خود کو ملازم جانیں نہ وظیفہ کو تنخواہ سمجھیں اور نہ تنخواہ کی کمی بیشی کا سوال اٹھا کر پڑھانے کا سلسلہ ختم کریں۔
علمیت جتانے یا معتقد بنانے کے لیے علم حاصل کرنا
(۳) {وعن کعب بن مالک ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ من طلب العلم لیجاری بہ العلماء أو یصرف بہ وجوہ الناس الیہ أدخلہ اللہ النار} (رواہ الترمذی)
’’حضرت کعب بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا جس نے اس لیے علم حاصل کیا کہ عالموں سے مقابلہ کرے یا جاہلوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کو اپنی طرف جھکاوے اللہ تعالی اس کو دوزخ میں داخل کریں گے‘‘
اس سے پہلی حدیث میں دنیا کا مال ومتاع، سازو سامان حاصل کرنے کے لیے علم حاصل کرنے پر وعید ارشاد فرمائی، اور اس حدیث میں مال وسامان کے علاوہ بعض دوسرے مقاصد کے لیے طلب علم کی مذمت فرمائی ہے اور اس کے اخروی عذاب سے آگاہ فرمایا ہے،
اللہ تعالی کی رضا چھوڑ کر علم حاصل کرنے کا ایک مقصد دیگر مقاصد کے علاوہ اپنی شہرت اور نام آوری اور قابلیت کی دھاک بٹھانا بھی ہوتا ہے، اس مقصد بد کی پاداش میں داخل دوزخ ہونے کی خبر حدیث شریف میں دی گئی ہے جب طالب