یہاں یہ بات بھی ذکر کردینا ضروری ہے کہ علمی فضیلت کے خیال سے فرصت وفراغت ہوتے ہوئے نوافل کا اہتمام نہ کرنا غلطی ہے ، نوافل اگرچہ لازم وضروری نہیں ہیں مگر ان کے ادا کرنے سے علم وعمل میں نورانیت آتی ہے کوئی للہ فی اللہ علمی مشغولیت میں لگا ہوا ہے اور نوافل کی فرصت نہیں ملتی بلاشبہ اس کو نوافل چھوڑ کر علمی کام انجام دینا چاہیے مگر جس کو علمی مشغلہ کی انجام دہی کے ساتھ نوافل کی فرصت ملتی ہو اس کے لئے عالم ہونے کے غرور میں نوافل ترک کرنا بہت حسرتناک ہے۔
علماء اور طلباء کا مرتبہ
(۱۰) {وعن ابی ہریرۃ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال الا ان الدنیا ملعونۃ ملعون ما فیہا الا ذکر اللہ وما والاہ وعالم او متعلم} (رواہ الترمذی وابن ماجہ)
’’حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا خبردار بلاشبہ دنیا پر لعنت ہے جو کچھ دنیا میں ہے اس پر (بھی) لعنت ہے مگر اللہ کا ذکر اور جو اس سے ملتا جلتا ہو اور عالم او رمتعلم (لعنت میں شامل نہیں) ‘‘۔
اس دنیا میں بہت کچھ چہل پہل، زیب وزینت اور ٹیپ ٹاپ ہے عہدے ہیں حکومتیں ہیں دولتیں ہیں عزتیں ہیں عیش کا سامان ہے، بلند عمارات ہیں مگر یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ محبوب ہیں نہ مقبول ہیں نہ ان کی کوئی قدروقیمت ہے اور صرف یہی نہیں کہ بے قدروقیمت ہیں بلکہ پوری دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے سب ملعون ہے سب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے، لعنت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے دور ہے اللہ کی پھٹکار میں ہے بارگاہ الٰہی سے دھتکاری ہوئی چیز کو ملعون کہتے ہیں ملعون مفعول کا صیغہ ہے جو لفظ لعنت سے لیا گیا ہے۔
لیکن اس دنیا میں جہاں شر ہے خیر بھی ہے طاعات وعبادات بھی ہیں اور گناہ ومعصیتیں بھی، غافلین بھی بستے ہیں اور ذاکرین بھی رہتے ہیں، بت خانوں میں گھنٹیاں بھی بج رہی ہیں اور مسجدیں بھی اذانوں سے گونج رہی ہیں کفروشرک کے اڈے بھی موجود ہیں اور مدارس ومکاتب بھی آباد ہیں تو اس صورت میں پوری دنیا ومافیہا کو مطلقًا ملعون قرار دینا بغیر استثناء کسی چیز کے درست نہیں ہوسکتا اسی لئے حضور اقدس ﷺنے دنیا ومافیہا کو ملعون فرما کر الا ذکر اللہ وماوالاہ الخ ارشاد فرمایا۔