Deobandi Books

فضائل علم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

21 - 54
گیرنہ ہونا، ان کو خوش رکھنا ان کی آمد کی قدر کرنا ان کو علوم واعمال سے نوازتے رہنا، ان کی دلداری اور خدمت ونصرت سے دریغ نہ کرنا،حضرات صحابہ کرام ؓنے اس نصیحت پر پورا پورا عمل کیا ان کے بعد ان کے شاگردوں اور پھر شاگردوں کے شاگردوں پر یعنی قیامت تک آنے والے تمام علمائے دین پر یہ فریضہ عائد ہوا، جس کی ادائیگی ہمیشہ علمائے حق کرتے رہے اور انشاء اللہ تعالیٰ کرتے رہیں گے۔
اکثر علماء علم سے تو نوازسکتے ہیں مگر دوسری نوازشوں سے (جن کا تعلق مال سے ہو) عاجز ہوتے ہیں ایسے مواقع پر ان علماء کے احباء واقرباء اور اہل شہر کو طالب علموں کی خدمت ونصرت کی طرف توجہ کرکے علم کے پھیلانے میں حصہ دار ہونا چاہیے۔
علماء ورثۃ الانبیاء ہیں
(۱۳)  {وعن کثیر بن قیس قال کنت جالسا مع ابی الدرداءؓ فی مسجد دمشق فجاء ہ رجل فقال یا اباالدرداء انی جئتک من مدینۃ الرسول ﷺلحدیث بلغنی انک تعدثہ عن رسول اللہ ﷺیقول من سلک طریقا یطلب فیہ علما سلک اللہ بہ طریقا من طرق الجنۃ وان الملٰئکۃ لتضع اجنحتہا رضا لطالب العلم اوان العالم یستغفرلہ من فی السمٰوات ومن فی الارض والحیتانفی جوف الماء وان فضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلۃ البدر علی سائر الکواکب وان العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درہما وانما ورثوا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافر} (رواہ احمد والترمذی وسماہ الترمذی قیس بن کثیر)
’’حضرت کثیر بن قیس  ؒ (تابعی) کا بیان ہے کہ میں حضرت ابو الدرداء ؓکے پاس دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک صاحب ان کے پاس آئے اور عرض کیا میں مدینہ منورہ سے آپکی خدمت میں ایک حدیث سننے کی غرض سے آیا ہوں مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ رسول اللہﷺ سے اس کی روایت کرتے ہیں اس کے علاوہ میری آمد کا اور کوئی مقصد نہیں ہے، حضرت ابو الدرداء ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺسے سنا ہے کہ جو شخص کسی ایسے راستہ میں چلا جس میں علم طلب کرنا چاہتا ہو خدا اس کو جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلائے گا (یعنی اسے جنت میں لیجانے والے کسی اہم اور بڑے عمل کا پابند بنادے گا جس کے ذریعہ جنت کا داخلہ اس کیلئے آسان ہوجائیگا) اور بے شک طالب علم کی خوشنودی کے لئے فرشتے اپنے پروں کو رکھ دیتے ہیں (یعنی اڑنا چھوڑ کر اللہ کی باتیں سننے کیلئے اتر آتے ہیں ) (وقیل معناہ بسط الجناح وفرشہا الطالب العلم ما لحیملہ علیہا من حاشیۃ الترمذی) اور بیشک عالم کے لئے آسمانوں والے اور زمین والے استغفار کرتے ہیں اور مچھلیاں (بھی) پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں اور بلاشبہ عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسی چودہویں رات کے چاند کو تمام ستاروں پر ہوتی ہے اور بے شک علماء نبیوں کے وارث ہیں اور یہ یقین جانو کہ نبیوں نے (کسی کو ) دینار ودر ہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ صرف علم کا وارث بنایا ہے، سو جس نے اس علم کو حاصل کیا اس نے بھر پور حصہ لے لیا۔ ‘‘
اس حدیث پاک میں چند امور کا تذکرہ فرمایا ہے جن کی تشریح وتوضیح مختلف مقامات پر اس رسالہ مین درج ہے یہاں ہم 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تصحیح نیت اور اس کی اہمیت 1 1
3 مہاجر ام قیس 1 1
4 طالب علم کیا نیت کرے 2 1
5 دنیا حاصل کرنے کیلئے علم دین حاصل کرنا 3 1
6 علمیت جتانے یا معتقد بنانے کے لیے علم حاصل کرنا 4 1
7 علم دین کی ضرورت اور فرضیت 6 1
8 اصل علم تین چیزوں کا علم ہے 10 1
9 دینی سمجھ انعام عظیم ہے 14 1
10 علمائے دین قابل رشک ہیں 15 1
11 معلم ومبلغ کے لئے دعائیں اور عابد پر عالم کی فضیلت 16 1
12 علماء اور طلباء کا مرتبہ 18 1
13 علماء کا وجود علم کا وجود ہے 20 1
14 طالب علموں کے ساتھ حسن سلوک 20 1
15 علماء ورثۃ الانبیاء ہیں 21 1
16 علم دین صدقہ جاریہ ہے 24 1
17 سب سے بڑا سخی 26 1
18 علماء اور حفاظ شفاعت کرینگے 27 1
19 مسجدوں میں ذکر وعلم کے حلقے 29 1
20 عورتوں کی تعلیم وتبلیغ کے لئے وقت نکالنا 30 1
21 مومن کو علم دین کا حریص ہونا چاہیے 32 1
22 طلب علم کے لئے سفر کرنا 34 1
23 ایک فقیہ شیطان کیلئے ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے 38 1
24 کوئی طالب علم دین خسارہ میں نہیں 40 1
25 علم پر عمل کرنا 41 1
26 قرآن شریف سیکھنا سکھانا 45 1
27 قرآن پڑھ کر بھول جانا 46 1
28 قرآن مجید کو شکم پروری کا ذریعہ بنانا 47 1
29 اپنی رائے سے تفسیر بیان کرنا 50 1
Flag Counter