دشمن زیادہ جانتا ہے تو کیا اس صورت اسلام کی تبلیغ کرسکے گا؟
ایں خیال ست ومحال ست وجنوں
دین کے اصول وفروع جسے معلوم نہ ہوں وہ دین کا مبلغ تو نہیں ہوسکتا ہاں دین کے نام پر خواہشات کی تبلیغ کرسکے گا۔
دینی سمجھ انعام عظیم ہے
(۷) {وعن معاویۃ ؓقال قال رسول اللہ ﷺ من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین وانما أنا قاسم واللہ یعطی} (رواہ البخاری ومسلم)
’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا جسے اللہ بھلائی سے نوازنا چاہتے ہیں اسے دین کا سمجھدار بنادیتے ہیں پھر فرمایا کہ میں بانٹنے ہی والا ہوں اور اللہ تعالی دیتے ہیں‘‘۔
اس حدیث پاک میں دو اہم باتیں ارشاد فرمائی ہیں اول یہ کہ اللہ تعالی کی دینی ودنیوی، روحانی وجسمانی نعمتیں اپنی مخلوق پر بہت زیادہ ہیں ، لیکن ان تمام نعمتوں میں (دولت ایمان کے بعد) جو بہت بڑی دولت ہے وہ دین کی سمجھ ہے جس کو خصوصیت کے ساتھ بڑی دولت دینے اور برتری اور بھلائی سے نوازنے کا ارادہ باری تعالی شانہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عنایت فرمادیتے ہیں سب سے بڑی نعمت دکانداری، مالداری، وزارت، لیڈری، گورنر، شہرت سحر بیانی نہیں ہے بلکہ دین کی سمجھ ہے جس کے سامنے تمام نعمتیں ہیچ ہیں او رجو اللہ تعالی کا خصوصی انعام ہے۔
حضور اقدس ﷺنے ’’دین کی سمجھ‘‘ فرمایا ہے دینی سمجھ دین کے اصول وفروع معلوم ہونے اور دینی زندگی اختیار کرنے اور دینداروں کی صحبت اٹھانے سے نصیب ہوتی ہے بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بہت زیادہ علم والا شرعی اشکال حل کرنے کیلئے گہری سوچ اور فکر میں پڑجاتا ہے اور جسے اپنی سمجھ ہوتی ہے جلدی حل کرلیتا ہے جہاں علم دین ضروری ہے وہاں دینی سمجھ بھی ضروری ہے دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں محض سمجھ سے دین پر چلنا اور دین کے مطابق فیصلے کرنا اور فتوے دینا درست نہیں ہوسکتا، دینی علم کی بھی ضرورت ہے اسی لئے حضور اقدس ﷺنے صرف یفقہ نہیں فرمایا بلکہ یفقہ فی الدین فرمایا اس زمانے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو تجارتی سمجھ یا وزارت چھیننے کو سمجھ یا سائنس کے ذریعے ایجادات سے منتفع ہونے اورروپیہ جمع کرنے یا مکان بنانے کی سمجھ رکھتے ہیں اور اسی حقیر سمجھ سے دین کی گھتیاں سلجھانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے ایسے فتوٰی دیتے رہتے ہیں جو سراسر غیر دینی ہوتے ہیں اور اصول دین کے پیش نظر ان مفتیوں کو کفر کی حد تک