Deobandi Books

فضائل علم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

41 - 54
(۲۵) {وعن الحسن (مرسلا) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من جاء ہ الموت وہو یطلب العلم لیحی بہ الاسلام فبینہ وبین النبیین درجۃ واحدۃ فی الجنۃ } (رواہما الدارمی)
’’حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کو اس حال میں موت آگئی کہ اسلام کے زندہ کرنے کے لئے علم حاصل کر رہا تھا تو اس کے اور نبیوں کے درمیان جنت میں ایک درجہ کا فرق ہوگا۔‘‘
اس حدیث پاک میں جہاں طالب علمی میں موت کی فضیلت ارشاد فرمائی ہے وہاں علم حاصل کرنے کا مقصد بھی بیان فرما دیا گیا ہے جس کو علم حاصل کرتے کرتے موت آگئی اور موت کی وجہ سے تحصیل علم  یاتکمیل علم کے مقصد عظیم سے عاجز رہ گیا وہ بھی اپنی نیت کی وجہ سے کامیاب ہوچکا اور علم وعمل سے جو اصل اور آخری مقصد ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا) وہ پورا ہوگیا اس کی موت بہت قیمتی ہے اس کے اور نبیوں کے درمیان جنت میں ایک ہی درجہ کا فرق ہوگا مگر شرط یہ ہے کہ طالب علم کی مشغولیت اسلام کو زندہ کرنے کے لئے ہو (لیحی بہ الاسلام)
اسلام کو زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے احکام سے جو فضا اور ماحول خالی ہے اور عمومی زندگیوں میں جو دین اور دینیات کی طرف سے غفلت ہے اور جہالت کی تاریکی کے باعث جو عملی زندگیاں بگڑی ہوئی ہیں تعلیم وتبلیغ کے ذریعہ اس بگاڑ کو دور کیا جاوے اور علم وعمل کے نور سے تاریک فضا کو منور کرنے کی کوشش کی جاوے، جو لوگ تحصیل علم میں مشغول ہیں ان کو چاہیے کہ اپنی نیت کی جانچ کرلیں اگر اب تک طلب علم کا مقصد اسلام کو زندہ کرنا نہ بنایا ہو تو اب بنالیں موت تو سب کو آئے گی اور طالب علم ہونے کے لئے بچہ بوڑھا یا جوان ہونا بالکل بھی شرط نہیں ہے ہر شخص اگر روزانہ پابندی کے ساتھ علم دین کے لئے کچھ نہ کچھ وقت ضرور خرچ کیا کرے اور موت تک اسی طرح گذار دے تو اس کی موت طالب علمی کی موت بن سکتی ہے۔
علم پر عمل کرنا
(۲۶) {وعن ابن مسعود عن النبی  صلی اللہ علیہ وسلم قال لاتزال قدما ابن اٰدم یوم القیٰمۃحتی یسأل عن خمس عن عمرہ فیما أفناہ وعن شبابہ فیما أبلاہ، وعن مالہ من أین اکتسبہ وفیما أنفقہ وماذا عمل فیما علم } (رواہ الترمذی)
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز انسان کے قدم (حساب کی جگہ سے ) نہ ہٹیں گے جب تک کہ پانچ چیزوں کا سوال نہ ہوجائے (۱) عمر کا سوال کہ کن کاموں میں فنا کردی (۲) جوانی کا سوال کہ کن چیزوں میں لگا کر نکمی کردی (۳) مال کہاں سے کمایا (۴) اور کہاں خرچ کیا (۵) جو کچھ علم تھا اس پر کیا عمل کیا۔‘‘

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تصحیح نیت اور اس کی اہمیت 1 1
3 مہاجر ام قیس 1 1
4 طالب علم کیا نیت کرے 2 1
5 دنیا حاصل کرنے کیلئے علم دین حاصل کرنا 3 1
6 علمیت جتانے یا معتقد بنانے کے لیے علم حاصل کرنا 4 1
7 علم دین کی ضرورت اور فرضیت 6 1
8 اصل علم تین چیزوں کا علم ہے 10 1
9 دینی سمجھ انعام عظیم ہے 14 1
10 علمائے دین قابل رشک ہیں 15 1
11 معلم ومبلغ کے لئے دعائیں اور عابد پر عالم کی فضیلت 16 1
12 علماء اور طلباء کا مرتبہ 18 1
13 علماء کا وجود علم کا وجود ہے 20 1
14 طالب علموں کے ساتھ حسن سلوک 20 1
15 علماء ورثۃ الانبیاء ہیں 21 1
16 علم دین صدقہ جاریہ ہے 24 1
17 سب سے بڑا سخی 26 1
18 علماء اور حفاظ شفاعت کرینگے 27 1
19 مسجدوں میں ذکر وعلم کے حلقے 29 1
20 عورتوں کی تعلیم وتبلیغ کے لئے وقت نکالنا 30 1
21 مومن کو علم دین کا حریص ہونا چاہیے 32 1
22 طلب علم کے لئے سفر کرنا 34 1
23 ایک فقیہ شیطان کیلئے ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے 38 1
24 کوئی طالب علم دین خسارہ میں نہیں 40 1
25 علم پر عمل کرنا 41 1
26 قرآن شریف سیکھنا سکھانا 45 1
27 قرآن پڑھ کر بھول جانا 46 1
28 قرآن مجید کو شکم پروری کا ذریعہ بنانا 47 1
29 اپنی رائے سے تفسیر بیان کرنا 50 1
Flag Counter