راز کھل گیا اور اس شخص کو مہاجر ام قیس (یعنی) ام قیس عورت کا مہاجر کہنے لگے، موقع کی مناسبت سے آنحضرتﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ جس کی ہجرت اپنی نیت میں اللہ ورسول کی طرف ہوگی اللہ کے نزدیک بھی اس کی ہجرت ایسی ہی سمجھی جائے گی اور اس ہجرت کا ثواب پائے گا، اور اگر کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے یا دنیا کے کسی دوسرے نفع کی غرض سے وطن چھوڑا تو اس کا یہ عمل اللہ کے نزدیک بھی غرض دنیاوی ہی کے لئے لکھا جائے گا۔
ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی نیت کا محاسبہ کرے اور غور کرے کہ وہ تعلیم کے مدرسوں اور تبلیغ کے مرکزوں سے وابستہ ہو کر جو ترکِ وطن کئے پردیس میں پڑا ہے اور در بدر کی تکلیفیں برداشت کررہا ہے اس سے رضائے خداوندی مقصود ہے یا دنیاوی حالات کو درست کرنا، شہرت ومرتبہ کمانا اور پیسہ وصول کرنا مقصود ہے؟ حاسبوا قبل أن تحاسبوا
طالب علم کیا نیت کرے؟
علامہ زرنوجی ؒ ’’تعلیم المتعلم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
ثم لا بدلہ من النیۃ فی زمان تعلم العلم اذا النیۃ ہی الأصل فی جمیع الأحوال لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام الاعمال بالنیات۔
’’پھر طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ علم حاصل کرنے کے زمانے میں نیت کو درست رکھے تمام حالات میں نیت ہی اصل چیز ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے‘‘ پھر چند سطر کے بعد لکھتے ہیں کہ:
وینبغي أن ینوی المتعلم بطلب العلم رضا للہ تعالی والدار الآخرۃ وازالۃ الجہل عن نفسہ وعن سائرا الجہال واحیاء الدین وابقاء الاسلام، فان بقاء الاسلام بالعلم ولا یصح الزہد والتقوی مع الجہل (الی أن قال) وینوي بہ الشکر علي نعمۃ العقل وصحۃ البدن، ولا ینوي بہ اقبال الناس الیہ ولااستجلاب حطام الدنیا والکرامۃ عند السلطان وغیرہ،
’’ علم حاصل کرنے سے طالب علم کی نیت اللہ تعالی کی رضامندی اور آخرت کی کامیابی ہونا چاہئے اور یہ بھی نیت کرے کہ میں جہالت کو اپنے نفس سے اور دوسرے جاہلوں سے دور کروں گا (تاکہ میں اور تمام مسلمان علم کی روشنی میں اسلام پر چل سکیں) نیز علم کے ذریعہ دین کو زندہ رکھنے اور اسلام کو باقی رکھنے کی بھی نیت کرے، جہالت کے ساتھ زہد اور تقوٰی صحیح نہیں ہوسکتا، اور علم حاصل کرنے میں یہ بھی نیت کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی نے جو مجھے عقل عنایت فرمائی ہی اور بدن تندرست رکھا ہے اس کا شکریہ ادا کررہا ہوں، علم سے یہ نیت نہ کرے کہ لوگ میری طرف متوجہ ہونگے اور دنیا کھنچ کر آئیگی اور بادشاہ وغیرہ کے نزدیک علم کے ذریعہ عزت پانے کی بھی نیت نہ کرے‘‘۔
علامہ زرنوجی ؒ کی اس تصریح سے واضح ہوا کہ طلب علم کی اصل غرض اللہ تعالی کی رضا کو اپنانا لازم ہے جو آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے، علم دین حاصل کرنا حکمِ خداوندی ہے اس حکم کی تعمیل سے اللہ تعالی بلاشبہ راضی ہوں گے جیسا کہ دوسرے احکام کی تعمیل سے راضی ہوتے ہیں پھر تعمیل حکم کی نیت کے ساتھ اگر دوسری نیتیں بھی کرلیوے تو ثواب پر