نے اپنی مبارک صحبت سے ہٹا کر درو دیوار اور برتنوں پر پھول، پتیاں اور طوطا مینا بنانے کی تعلیم کے لیے بھیجنا چاہا تھا؟ ایسی بات ہم تو نہیں کہہ سکتے، آپ ہی کو مبارک ہو، اگر کہا جائے کہ آپ ﷺکی صحبت چھوڑ کر صحابہ کرام نے جانا پسند کیا تو عرض کروں گا کہ آپ کے بعد بھی صحابہ کرامؓپچاس برس تک دنیا میں تھے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بڑی بڑی خدمات انجام دیں، مگر علوم دنیا سیکھنے کے لیے نہ چین تشریف لے گیے نہ جاپان نہ یورپ پہنچے نہ کسی دوسری جگہ کا سفر اختیار کیا حدیث نبوی کا صحیح ترین مطلب سمجھنے والے اور فرمان نبوی پر سب سے زیادہ مضبوط اور پختہ طریقے پر عمل کرنے والے حضرات صحابہؓہی تھے اگر انہوں نے یہ حدیث سن کر علوم دنیا کو اہمیت نہیں دی تو ہم کیوں اہمیت دیں ان کے زمانے میں اگرچہ دنیا کے علوم جدیدہ نہ تھے مگر دنیاوی علوم قدیمہ تو بہرحال تھے۔
ہاں اپنااپنا دین وایمان رکھتے ہوئے اور اسلامی علوم واعمال سے وابستہ رہتے ہوئے کوئی مسلمان دنیاوی علوم حاصل کرے تو اس کی اجازت ہے جس کی تفصیل انشاء اللہ ہم آئندہ حدیث کی تشریح میں لکھیں گے واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
اصل علم تین چیزوں کا علم ہے
(۵) {وعن عبد اللہ بن عمرو ؓ قال قال رسول اللہ ﷺالعلم ثلثٰۃ آیۃ محکمۃ اوسنۃ قائمۃ او فریضۃ عادلتہ وما سویٰ ذلک فہو فضل} (رواہ ابوداؤد)
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصل علم تین چیزوں کا علم ہے (۱) آیت محکمہ (۲) سنت قائمہ (۳) فریضہ عادلہ، اور ان کے علاوہ جو علم ہے ضرورت سے زیادہ ہے۔
آیت محکمہ سے آیت قرآنیہ مراد ہیں ، محکمہ بمعنی مضبوط ہے، قرآن شریف کی تمام آیات مضبوط ہیں کیونکہ اس کے الفاظ ومعانی میں ذرا بھی خلل اور کجی نہیں ہے اور اپنے دعاوی پر نہایت مضبوط دلائل پیش کیے ہیں سورہ ہود کے شروع میں ہے۔
کتاب احکمت اٰیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر
محکم، متشابہ کے مقابل معنی کے لیے بھی آتا ہے اور غیر منسوخ کے معنی میں بھی لیتے ہیں مگر یہاں یہ دونوں معنی مراد نہیں ہیں کیونکہ قرآن شریف کی تمام ہی آیات کی علم اصلی علم ہے۔
سنت قائمہ سے آنحضرت ﷺکے احوال واعمال اور اقوال مراد ہیں، قائمہ بمعنی ثابتہ ہے اس لفظ کے بڑھانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ ہرکس وناکس کے کہہ دینے سے کسی چیز کو سنت سمجھنا ٹھیک نہ ہوگا بلکہ جو قول وفعل آنحضرت ﷺسے ثابت ہو اسی کو سنت سمجھنا چاہیے۔