Deobandi Books

فضائل علم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

17 - 54
درجات کا اللہ تعالی ہی کو علم ہے پس جس طرح آنحضرت ﷺکے فضائل ودرجات کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے اسی طرح عالم کی فضیلت جو عابد پر ہے وہ بھی ہمارے قیاس وگمان اور اندازے سے باہر ہے۔
عالم کی فضیلت بیان فرما کر حضور ﷺنے اس کی محبوبیت کا ذکر فرمایا کہ جو شخص خیر کی تعلیم دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا پیارا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے فرشتے بھی اسے چاہتے اور مانتے ہیں اس کیلئے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور نہ صرف فرشتے بلکہ آسمان وزمین کے بسنے والے سب ہی اس کی بھلائی کے خواہاں ہوتے ہیں اور اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں چیونٹیاں اور مچھلیاں تک بھی اس کو دعائے خیر میں یاد رکھتی ہیں مچھلیوں کا ذکر الگ سے شاید اس لئے فرمایا کہ یہ گمان نہ ہوجائے کہ دریائی چیزیں دعائے رحمت میں شریک نہیں۔
زمین وآسمان والے چیونٹیاں اور مچھلیاں خیر سکھانے والے کے لئے کیوں دعا کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک دنیا میں اللہ تعالیٰ کانام لیا جاتا ہے اسی وقت تک یہ عالم آباد ہے جب اللہ تعالیٰ کا ذکر اس دنیا میں نہ رہے گا تو یہ دنیا ختم ہوجائے گی یعنی قیامت آجائے گی، پس چونکہ دینیات کے سکھانے اور پھیلانے والے اللہ کے ذکر کو باقی اور جاری رکھنے کا کام کررہے ہیں اس لئے وہ دعائے خیر کے مستحق ہیں ان کی تعلیم وتبلیغ بقائے عالم کا سبب ہے جس سے آسمان وزمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے وہ سب زندہ اور باقی ہے تو گویا اپنی بقاء میں چیونٹیاں اور مچھلیاں اور تمام آسمان وزمین والے معلمین ومبلغین کے احسان مند ہیں اور اسی احسان کے بدلے دعا کرتے ہیں ۔
سنن دارمی میں ہے کہ حضرت حسن بصری  ؒ نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ سے بنی اسرائیل کے دو شخصوں کے متعلق سوال کیا گیا جن میں سے ایک عالم تھا اور فرض نماز پڑھ کر بیٹھ جاتا تھا اور لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا تھا(نوافل کا اہتمام نہ کرتا تھا) (مؤکدہ سنتوں کا اہتمام سب کیلئے ضروری ہے بنی اسرائیل میں سنتیں نہ تھیں اس لئے صرف فرضوں کا ذکر ہے۔) اور دوسرا (عبادت گذار تھاجو) دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات بھر (نفل نماز میں ) کھڑا ہوتا تھا سوال کا مقصد یہ تھا کہ آنحضرت ﷺکس کے متعلق فضیلت ارشاد فرماتے ہیں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عالم فرض پڑھ کر لوگوں کو خیر سکھانے کے لئے بیٹھ جاتا ہے اس کی فضیلت اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات قیام کرتاہے ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سب سے ادنیٰ درجہ کے مسلمان پر ہے (مشکوٰۃ شریف)
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہوتے ہوئے علم پھیلانے کی فضیلت ہے جو اپنی نمازیں ضائع کرتا ہو یا دوسرے فرائض وواجبات کو چھوڑتا ہو اور اس وقت میں یہ سمجھ کر کہ میں عابدوں سے افضل ہوں تعلیم دینے میں لگا ہوا ہوں ایسا عالم نفس کے دھوکے اور شیطان کے پھندے میں ہے۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تصحیح نیت اور اس کی اہمیت 1 1
3 مہاجر ام قیس 1 1
4 طالب علم کیا نیت کرے 2 1
5 دنیا حاصل کرنے کیلئے علم دین حاصل کرنا 3 1
6 علمیت جتانے یا معتقد بنانے کے لیے علم حاصل کرنا 4 1
7 علم دین کی ضرورت اور فرضیت 6 1
8 اصل علم تین چیزوں کا علم ہے 10 1
9 دینی سمجھ انعام عظیم ہے 14 1
10 علمائے دین قابل رشک ہیں 15 1
11 معلم ومبلغ کے لئے دعائیں اور عابد پر عالم کی فضیلت 16 1
12 علماء اور طلباء کا مرتبہ 18 1
13 علماء کا وجود علم کا وجود ہے 20 1
14 طالب علموں کے ساتھ حسن سلوک 20 1
15 علماء ورثۃ الانبیاء ہیں 21 1
16 علم دین صدقہ جاریہ ہے 24 1
17 سب سے بڑا سخی 26 1
18 علماء اور حفاظ شفاعت کرینگے 27 1
19 مسجدوں میں ذکر وعلم کے حلقے 29 1
20 عورتوں کی تعلیم وتبلیغ کے لئے وقت نکالنا 30 1
21 مومن کو علم دین کا حریص ہونا چاہیے 32 1
22 طلب علم کے لئے سفر کرنا 34 1
23 ایک فقیہ شیطان کیلئے ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے 38 1
24 کوئی طالب علم دین خسارہ میں نہیں 40 1
25 علم پر عمل کرنا 41 1
26 قرآن شریف سیکھنا سکھانا 45 1
27 قرآن پڑھ کر بھول جانا 46 1
28 قرآن مجید کو شکم پروری کا ذریعہ بنانا 47 1
29 اپنی رائے سے تفسیر بیان کرنا 50 1
Flag Counter