’’فریضۃ عادلۃ‘‘ یعنی فرائض دینیہ شرعیہ کا علم بھی اصل علم ہے، عادلہ بمعنی برابر ہے قرآن وحدیث کے علم کے ساتھ فرائض دینیہ کو علیحدہ ارشاد فرمایا کیونکہ بعض احکام ایسے ہیں جو اجماع امت سے ثابت ہیں اور ان پر عمل کرنا بھی فرض ولازم ہے اور ان کا علم بھی قرآن وحدیث کے علم کے برابر فرض ہے اس لفظ کے بڑھانے سے علم فقہ واصول فقہ کی ضرورت ثابت ہوتی ہے، قال فی مجمع البحار عادلۃ ای مستقیمۃ وقیل مساویۃ لما ثبت بالکتاب والسنۃ فی الوجوب یستنبط من الکتاب والسنۃ والاجماع والقیاس وہو شامل لجمیع انواع الفرائض وما سواہ فہو فضل لا خیر فیہ الی اخر ما قال۔
جاننے کی چیزیں بہت ہیں انسان کو عمر نوع مل جایے اور علم حاصل کرتا رہے تو چیزیں بچ جائیں گی اور عمر ختم ہوجائیگی اشد ضروری سمجھ کر کس علم میں اولا لگنا چاہئے جس سے بڑے نقصان سے حفاظت ہوجائے اور اہم ترین نفع حاصل ہوسکے اس سلسلے میں مشورہ اسی ذات وحدہ لاشریک کا معتبر ہوگا جس نے انسانوں کو اور ان کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پیدا فرمایا جو ازل سے ابد تک سب کچھ جانتا ہے جس کی ضروریات وحاجات حاضرہ وآئندہ کے متعلق صحیح علم ہے کہ انسان کی کونسی ضرورت بڑی ہے اور کونسی چھوٹی ہے۔
حدیث پاک خداوند قدوس کے قاصد وپیغامبر کا ارشاد ہے جس کی بعثت انسانوں کو صحیح معنی میں نفع ونقصان سے آگاہ کرنے کے لیے ہوئی خدائے تعالی شانہ کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ اصل علم تین چیزوں کا علم ہے ، آیت محکمہ، سنت قائمہ، فریضہ عادلہ اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے ضرورت سے زائد ہے۔
ہمارے زمانہ کے مغربیت زدہ لوگوں کی سمجھ کے مطابق تو اس حدیث کا مضمون صحیح نہ ہوگا، کیونکہ ان لوگوں کے نزدیک دنیا، دولت دنیا، نعمت دنیا، علم دنیا، محنت دنیا، محبت دنیاہی سب کچھ سے مابعد الموت کی دولت ونعمت پر نہ یقین ہے نہ وہاں کامیابی دلانے والے علوم واعمال سے تعلق ومحبت ہے ایسے لوگ اگر حضران انبیاء کرام ؑ اور ان کے وارثوں کے علوم کا مذاق اڑائیں اور حقیر وبے حقیقت سمجھیں تو ذرا بھی جائے تعجب نہیں ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حق کسی کے ماننے سے حق نہیں ہوتا بلکہ حق کی جیت یہی بہت بڑی ہے کہ وہ حق ہے، یہ حق ہے کہ اللہ تعالی خالق الکل اور مالک الکل ہے یہ حق ہے کہ مرنا ہے یہ حق ہے کہ مرنے کے بعد زندگی کے اعمال واقوال کا محاسبہ ہی حساب وکتاب ہے جزا وسزا ہے، دکھ تکلیف ہے، آرام وراحت ہے اور یہ بھی حق ہے کہ دنیا کی تکلیفیں فانی ہیں اور آخرت کے عذابوں سے ان کو وہ نسبت بھی نہیں ہے جو ذرہ کو پہاڑ سے ہے، اس طرح دنیا کی نعمتیں اور دولتیں فانی ہیں اور آخرت کی نعمتوں اور دولتوں کے سامنے ہیچ در ہیچ ہیں اور یہ بھی حق ہے کہ آخرت کی لذتیں اور دولتیں دنیا میں حکومت و دولت اور عیش وعشرت والا ہونے سے نہ ملیں گی بلکہ وہاں ان اعمال کی قیمت اٹھے گی جو حکم خداوندی کے پیش نظر کیے گیے تھے اور احکام خداوندی آیات قرآنیہ