مقام اخلاص و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کے پاس لے جاتی ہے۔ ماں کی اس محبت کے بارے میں مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ؎مادراں را مہر من آموختم چوں بود شمعے کہ من آفرو ختم یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے ہی ماؤں کو محبت کرنا سکھایا ہے اور ماؤں کی محبت میری ایک ادنیٰ سی بھیک ہے تواِسی سے اندازہ لگا لو کہ میری محبت کا آفتاب کیسا ہوگا؟ تم ماؤں کی محبت پر ناز کرتے ہو اور ان کی محبت کو یاد کرتے ہو۔ ارے! امّاں ابّا سے زیادہ ربّا کو یاد کرو، کیوں کہ ماؤں کے دل میں محبت اللہ تعالیٰ نے ہی تو رکھی ہے۔ جب ماں کے اندر خدائے تعالیٰ کی رحمت کی ادنیٰ بھیک کا یہ اثر ہے تو حق تعالیٰ جو ارحم الراحمین ہیں ان کی رحمت کی کیا شان ہوگی! شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ تفسیر موضح القرآن میں لکھتے ہیں کہ عرشِ اعظم کے سامنے اللہ تعالیٰ نے یہ جملہ لکھوایا ہے: سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ 13؎یعنی میری رحمت میرے غضب سے بڑھ گئی۔ اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ جملہ لکھوانا از قبیلِ مراحم خسروانہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ شاہی رحم کے طور پر لکھوایا ہے تاکہ اگر میرا کوئی بندہ قانون کی رو سے نہ بخشا جائے تو میں اپنے شاہی رحم سے اُس کو بخش دوں۔ کبھی کبھار اس مضمون کی دعا بھی کرلی جائے کہ اے خدا!ا گر آپ نے مجھے جہنمی لکھا ہے اور میں واقعی جہنم کے قابل ہوں بھی، لیکن اس کے باوجود میں آپ سے شاہی رحم کی درخواست کرتا ہوں کیوں کہ میں قانون کی رو سے تو بخشے جانے کے قابل نہیں ہوں لیکن اے اللہ! آپ کا شاہی رحم قانون سے بالاتر ہے اور میں آپ کو آپ کے شاہی رحم کا واسطہ دے کر آپ سے آپ کے شاہی رحم کی درخواست کرتا ہوں کہ اپنے اس خاص رحم سے قیامت کے دن مجھے بخش دیجیے اور میری تقدیر بدل دیجیے اور تقدیر بدلنے کی آپ کو پوری قدرت حاصل ہے کیوں کہ قضا آپ کی محکوم ہے، آپ پر حاکم نہیں ہے۔ اگر آپ نے ہماری شامتِ اعمال سے ہمارے خلاف فیصلہ کرہی دیا ہے تو بھی آپ کافیصلہ اور آپ کی قضا آپ کی محکوم ہے، آپ پر حاکم نہیں ہے _____________________________________________ 13؎صحیح البخاری:1127/2، باب قولہ بل ہو قراٰن مجید،المکتبۃ المظہریۃ