ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
کرنے کے بعد پشیمان اور نادم ہوکر توبہ واِستغفار کرے پھر عادت پڑنے کا خطرہ نہیں رہتا۔ دُوسری وجہ (گناہوں کے عادی ہوجانے کی) یہ ہے کہ آدمی سرے سے گناہ کوگناہ ہی نہ سمجھے اور یہ بہت ہی خطرناک صورت ہے۔ ظاہر ہے کہ جب وہ گناہ کوگناہ ہی نہیں سمجھے گاتو کبھی بھی اُس پر پشیمان نہیں ہوگا اور توبہ واِستغفار بھی نہیں کرے گا۔ آج کل یہ مرض عام ہے کوشش کی جاتی ہے کہ گناہ کے کام کوکسی طرح جائز بنایاجائے ،کہا جاتا ہے کہ'' سود'' اِتنا حرام ہے اور اِتناحلال ہے ،''شراب'' فلاں حد تک حلال اور فلاں حد تک حرام ہے، گویا حرام کو کسی نہ کسی طرح حلال قرار دینے کی ناروا کوششیں کی جاتی ہیں (العیاذ باللہ) حالانکہ دین مکمل ہوچکا ہے جو چیز جائز ہے وہ ناجائز نہیں بن سکتی اور جو کام ناجائز ہے وہ جائز نہیں ہوسکتا، جو کام حضور ۖ کے زمانہ میں جائز تھے وہ قیامت تک جائز رہیں گے اور جن کاموں کوحضور ۖ نے ممنوع قرار دیا وہ قیامت تک ناجائز اور ممنوع رہیں گے۔ اِرشادہے( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا) ١ ''آج کے روز میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور میں نے تمہارے لیے اِسلام کو بطورِ دین کے پسند کیا۔ '' آج بہت سی چیزیں جن کوشریعت نے حرام قرار دیاہے جائز بتایا جاتا ہے ،زمانہ و حالات کے تقاضے کی آڑ لے کر ناجائز کوجائز بتایا جا رہاہے، اِس کا مطلب تویہ ہوا کہ دین مکمل نہیں اِس میں ہر زمانہ میں تغیر و تبدل اور کمی بیشی ہوتی رہے گی (العیاذ باللہ) حالانکہ دین ِ اسلام کی تکمیل ہو چکی ہے اِکمالِ دین و اِتمامِ نعمت کے بعد نہ نئی شریعت کی ضرورت ہے اور نہ ہی نئے نبی کی حاجت، اب کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ خدا کے آخری نبی کی حرام کردہ چیزوں کوحلال اور حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِسی دین ِکامل پر زندگی اور موت نصیب فرمائے، گناہوں پر جمے رہنے کی بیماری سے ہمیشہ ہمیشہ پناہ میں رکھے، توبہ واِستغفار کی توفیق اَرزانی فرمائے اور آخرت میں آقائے نامدار ۖ کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ ضضض (بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ٢٨ جون ١٩٦٨ئ)١ سُورة المائدة : ٣