ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
(اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ) یہ توپہلے لو گوں کے قصے ہیں اب اِس آیت (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ)میںاِس طرف اِشارہ کیا کہ یہ جو یومِ جزاء کا اِنکار کرتے ہیں یاقرآنِ حکیم کو پہلے لوگوں کی کہانیاں کہہ کوجھٹلاتے ہیں اور خود کونارِ جہنم کا مستحق بناتے ہیں یہ اِس لیے نہیں کہ اُن کی سر شت وفطرت ایسی ہے ،نہیں بلکہ اُن کے اِختیاری اعمال سے اُن منکرین ومکذبین کی بُری حر کتوں اور بد اعمالیوں کے باعث اُن کے قلوب پر تاریکی چھاگئی، مسلسل معاصی کے اِرتکاب اور سر کشی کے باعث اُن کے قلوب میں حق بات قبول کرنے یومِ جزاء سے ڈرنے یا خداکی آیات اور قصے کہانیوںمیں فرق کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی،گناہوں کی کثرت سے اُن کے دلوں پرظلمت چھا گئی اپنی ہی کر توتوں کے سبب ہوش و حواس کھوبیٹھے ہیں گویا اِن ہی دُوسرے گناہوں کی عادت نے تکذیب واِنکار جیسے عظیم اور ہلاکت آمیز گناہ تک پہنچایا۔ تو اِس حدیث شریف میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اگرکسی شخص نے گناہ کرنے کے بعد توبہ نہ کی اور برابر گناہ کرتا رہا تو رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ اُس کا سارا دل سیاہ ہوجائے گا وہ قبولِ حق کی جملہ صلاحیتوں سے ہاتھ دھوبیٹھے گا، مسلسل چھوٹے گناہ کرنے سے اُس کے اندر گناہ کی قوت بڑھ جائے گی اور پھر بڑے سے بڑے گناہ کرنے سے بھی اِجتناب نہیں کرے گا۔ گناہوں کی عادت انسان کوبُری طرح ہلاکت میں ڈال دیتی ہے اور یہ عادت دو طرح سے پڑتی ہے۔ ایک تویہ کہ آدمی کسی گناہ کو زیادہ خطرناک خیال نہ کرے بلکہ معمولی سمجھ کرکرتا رہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ گناہ صغیرہ ہویا کبیرہ خطرے سے خالی نہیں ہوتا، حدیث شریف میں ہے کہ جنابِ رسالت مآب ۖ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا اِیَّاکِ وَ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ ١ یعنی چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچتی رہاکرو کیونکہ خدا تعالیٰ کے ہاں چھوٹے گناہوں پر بھی مواخذہ ہوسکتا ہے اور چھوٹے چھوٹے گناہوں کا ہمیشہ کرنا آدمی کو بڑے گناہوں پر جرأت دلاتا ہے اُس میں بتدریج گناہ کی قوت بڑھتی رہتی ہے آخر کار یہ آدمی کبائر کااِرتکاب بھی کرنے لگ جاتا ہے ویسے بھی یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ صغیرہ گناہوں پر ہمیشگی اُس کو کبیرہ گناہ میں تبدیل کر دیتی ہے ،ہاں اگر گناہ١ مشکوة شریف کتاب الرقاق رقم الحدیث ٥٣٥٦