ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھا ؤں میں اللہ رب العزت سے ڈرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ کا ذمہ دار تو ہی ہو پھر توہی دوزخی ہوگا، ظالموں کی یہی جزا ہے۔پس اُس کے نفس نے اُس کو اپنے بھائی کے قتل پر راضی کر دیا چنانچہ اُس نے قتل کردیا لہٰذا زُمرہ ٔخاسرین میں داخل ہو گیا۔ '' اب اُس کے بھائی کی نعش پڑی ہوئی ہے اُخوت کے فطری جذبات جوش مار رہے ہیں اور اُس سے زیادہ حیرانی یہ ہے کہ اِس لاش کو کیا کرے ! ( فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَہ کَیْفَ یُوَارِیْ سَوْاَةَ اَخِیْہِ ) ١ ''پھر خدا نے ایک کوا بھیجا جوزمین کرید رہا تھا تاکہ اُس کو دکھادے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کوکیسے چھپائے۔ '' ابن ِسعد نے ذکر کیا ہے کہ یہ قتل شام کے وقت ہوا تھا وہ صبح کو دیکھنے گیا نیز یہ خیال تھا کہ اِس نعش کا کیاکیاجائے تب وہاں اُس نے کوے کو دیکھا ۔ ارشادِ ربانی یہ ہے کہ کوے کے واقعہ سے سبق حاصل کرکے قابیل نے کہا : (قَالَ یٰوَیْلَتٰی اَعَجَزْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِثْلَ ھٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْاَةَ اَخِیْ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِ مِیْنَ) (سُورة المائدہ : ٣١) ''ہائے افسوس کہ میں اِس کوے کی برابری سے بھی قاصر رہا کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپادیتا پھر وہ چھپانے لگا۔ ''(بقیہ حاشیہ ص ٢٤ ) یعنی جب دو مسلمان تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابلہ پر آئیں توقاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے،صحابہ کرام نے عرض کیا کہ قاتل توبیشک دوزخ کا مستحق ہے مقتول دوزخ میں کیوں جائے گا ؟ فرمایا اس لیے کہ جذبہ اُس کا بھی یہی تھا یہ دوسری بات ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوسکا پس آیت ِ کریمہ نے اِشارہ فردیا کہ حفاظت ِجان کی صورت میں مقصود حفاظت اور دفاع ہونا چاہیے قتل مقصود نہ ہونا چاہیے پھراِس کوشش ِحفاظت میں اگر قتل ہوجائے تومعاف ہے۔ ١ سُورة المائدہ : ٣١