ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
حضرت آدم علیہ السلام نے التجا کی خدا وندا میں کس طرح معلوم کرسکتا ہوں کہ زمین کا کون سا حصہ حریم عرش کے مقابلے میں ہے ؟ خدا وند عالم نے کچھ فرشتے بھیج دیے جو حضرت آدم علیہ السلام کو بیت اللہ (کعبہ مکرمہ) کی طرف لے چلے ،اِس سفر میں جہاں جہاں کوئی اچھی جگہ نظر آتی تھی حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں سے قیام کے لیے فرمائش کرتے، یہ تمام مقامات بڑے بڑے شہر ہوگئے اور جن جن حصوں سے گزرگئے وہ خالی میدان رہے بہر حال حضرت آدم علیہ السلام اُس مقام پر پہنچے جہاں کعبہ کی تعمیر ہونی تھی، حضرت آدم علیہ السلام نے پانچ پہاڑوں کے پتھر سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی: طورِ سینا، طورِ زیتون، لینان، جودی اور اُس کے کھنبے حرا پہاڑ کے پتھر سے بنائے،جب تعمیر بیت اللہ سے فارغ ہوئے تو فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کو عرفات لے گئے وہاں اُن تمام مناسک سے مطلع کیا جن کو آج ادا کیا جاتا ہے اِس کے بعد مکہ معظمہ میں لائے جہاں حضرت آدم علیہ السلام نے سات مرتبہ بیت اللہ کا طواف کیا پھر حضرت آدم علیہ السلام کو دوبارہ ہندوستان واپس لائے جہاں ''نوذ'' مقام پر آپ کی وفات ہوئی۔(بقیہ حاشیہ ص٢١)جنت کے سو درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اس طرح پچاس ہزار سال کی مسافت صرف جنت کے درجات میں ہے، اب تیز رفتار سواری سے مسافت طے کی جائے توظاہر ہے کہ اِس کا اندازہ اعداد و شمار کے آخری درجہ پر پہنچے گا پھر ان تمام مسافتوں کے اُو پر عرشِ رحمن ہے تو اُس کا طول و عرض تو لا محالہ گنتی کے دائرہ سے خارج ہوگا تو اتنی طویل بلکہ لا محدود کے مقابلہ پرزمین کیسے آسکتی ہے حالانکہ خانۂ کعبہ کا طول و عرض تقریبًا ١٥١٥ گز ہے ،یہ سوال بظاہر بہت اہم ہے لیکن جب اقلیدس کے نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو جواب بالکل واضح ہے کیونکہ جب آسمانوں اور زمینوں کو گودی (گول) اور طَباق یعنی ایک دوسرے کے اُوپر مانا گیا ہے تو لا محالہ بڑے دائرہ کے مقابلہ پر چھوٹے دائرہ کاحصہ بہت چھوٹا ہوگا کیونکہ کسی مر کز کو جب مثلث کا نقطہ بنا کر خطوط کھینچے جائیں تو مثلث کی دو شاخیں جس قدر بڑھتی رہیں گی اُتنا ہی اِن شاخوں کے درمیان کا فاصلہ بڑھتا رہے گا مثلاً V(محمد میاں )