ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2016 |
اكستان |
|
( اُسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّةَ فَکُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ) (سُورة البقرة : ٣٥ ) ''تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو، اور کھاؤ اُس میں سے محظوظ ہو کر جس جگہ چاہو اور نزدیک نہ جاؤ اِس درخت کے پس ہو جاؤ گے بے اِنصاف۔ '' حضرت آدم علیہ السلام حضرت حوا کے ساتھ جنت میں رہنے لگے، جنت کی اُن نعمتوں سے لذت اندوز ہوتے جو اِنسانی وہم و گمان سے بالا تر ہیں۔ شیریں چشمے سایہ دار درخت لہلہاتے ہوئے مرغزاروں میں صاف و شفاف پانی کے زمین دوز فوارے شیریں اورتازہ پھل، مہکتے ہوئے خوش رنگ پھول تو ہمارے باغیچوں کے دل آویزاور دلکش اوصاف ہیں مگر جنت کی نعمتیں اِن سے کہیں با لا ہیں اِن کے متعلق رسول اللہ ۖ کااِرشاد ہے مَا لَا عَیْن رَأَتْ وَلَا اُذُن سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ١ ''وہ نعمتیں کہ نہ آنکھوں نے دیکھیں، نہ کانوں نے سنیں اور نہ کسی انسان کے دل میں اُن کا وہم و گمان گزرا '' بظاہر جنت سے مراد وہی جنت ہے جس کا وعدہ نیک بندوں کے لیے کیا گیاہے۔ معتزلہ وغیرہ کا خیال یہ ہے کہ دُنیا کے کسی سر سبز خطے کوجنت سے تعبیر کیا گیا ہے، بہت ممکن ہے کہ اِس کا مأخذ بائبل کی یہ روایت ہوکہ ''خداوندخدا نے عدن میں پو رب ١ کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اُس نے بنایا تھا وہاں رکھا۔'' (پیدائش ص٤) مگر قرآنِ پاک کے الفاظ توریت کے اِس مضمون کی تائید نہیں کرتے، اِس بحث میں پڑنا ہمارے موضوع سے خارج ہے، بہرحال قرآنِ پاک کے الفاظ میں سیّدنا آدم علیہ الصلٰوةو السلام کے لیے یہ نعمت حاصل تھی ( اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلاَ تَعْرٰی وَاَنَّکَ لَا تَظْمَأُ فِیْھَا وَلاَ تَضْحٰی) ٣ ''تم کو یہ ملا ہے کہ نہ بھوکے رہو اِس میں اور نہ ننگے اور نہ پیاسے رہو اِس میں اور نہ دھوپ میں تپو۔ '' بہرحال ایک مدت تک حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا خدا وندی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتے رہے۔ ١ بخاری شریف کتاب التوحید رقم الحدیث ٧٤٩٨ ٢ مشرق ٣ سورۂ طٰہٰ : ١١٨