ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
اِس سے کم میں ختم کرنا صحیح نہیں۔ اِس جماعت کے بر عکس اَسلاف کی دُوسری جماعت کا کہنا ہے کہ اِس حدیث کا تعلق اکثر افراد کے اعتبار سے ہے کہ اکثر افراد کا حال ایسا ہی ہے کہ اُنہیں کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنے کی صورت میں قرآن فہمی اور تدبر حاصل نہیں ہوتا، تمام افراد کے اعتبار سے یہ حدیث نہیں ہے کیونکہ بہت سے صحابہ و تابعین اور اَسلاف ِ اُمت سے تین دن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنا ثابت ہے ،اُن کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بزرگ بغیر غور و فکر اور تدبر کے قرآن پڑھتے تھے اور اُن کو قرآن کا فہم حاصل نہیں ہوتا تھا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اِس حدیث ِ پاک کا تعلق اُن حضرات سے ہے جو صاحب ِ کرامت نہیں ہیں اُن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اُنہیں تین دن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنے میں تدبر میسر نہیں آسکتا ، رہے وہ اَصحاب و اَشخاص جوصاحب ِ کرامت ہیں اُنہیںکم سے کم مدت میں بھی بہت کچھ تدبر حاصل ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کے اوقات میں برکت عطا فردیتے ہیں اِس لیے یہ حضرات تھوڑی سی مدت میں وہ کام کر لیتے ہیں جو دُوسرے لوگ زیادہ سے زیادہ مدت میں بھی نہیں کر پاتے، ایسی صورت میں اِس حدیث ِ پاک کو تین دِن سے کم مدت میں قرآنِ پاک ختم کرنے کے منع ہونے یا مکروہ ہونے کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حدیث ِ پاک میں فہم کی نفی کی گئی ہے ثواب کی نہیں، اِس سے بھی صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تین دن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنا جائز ہے کیونکہ اگر ناجائز اور منع ہوتا توثواب کی نفی کردی جاتی۔ یہاں سے اُن لوگوں کا غلطی پر ہونا بھی واضح ہوجاتا ہے جو اُن اَسلاف ِ اُمت پر زبانِ طعن دراز اور اعتراض کرتے ہیں جن کا معمول تین دِن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنے کا تھا، اللہ تعالیٰ عقل وشعور عطا فرمائے، اِس سلسلہ میں ناچیز کے ایک رسالے ''نعمان اور قرآن'' کامطالعہ اِنشاء اللہ مفید رہے گا