ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
''مجھ سے بیعت کرو اِس پر کہ اللہ کا کسی کو شریک نہیں گر دانو گے، سر قہ اور زِنا کا اِرتکاب نہ کرو گے اور اپنی اولاد (لڑکیوں کو) قتل نہ کرو گے اور بہتان نہ باندھو گے اور کسی بھی اچھے کام میں نا فرمانی اور حکم عدولی نہ کروگے پس جو شخص اِس عہد کو پوراکرے اُس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جو شخص اِن میں سے کسی جرم کا مرتکب ہو جائے پس اگر دُنیا میں اُس کو اُس کی سزا مل گئی تو وہ کفارہ ہو سکتی ہے اور اگردُنیا میں اللہ نے اُس کی پردہ پوشی کر لی توپھر اُس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے معاف کرے اور اگرچاہے سزا دے (راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت ۖ یہ اِرشاد ختم کر چکے )تو ہم نے آپ سے اِن باتوں پر بیعت کی۔'' رسول اللہ ۖ نے مختلف لوگوں سے مختلف چیزوں پر بیعت لی ہے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ۖ نے بیعت لی اِس بات پر کہ ہم ہر مسلمان کی خیر خواہی کریں گے اور حفاظت کریں گے اور جن چیزوں سے منع کیا ہے اُس سے بچیں گے۔ حضرت سلمہ بن اَکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حدیبیہ میں کس چیز پر بیعت کی تھی تو کہا ''موت'' پر یعنی اِس پر کہ مر جائیں گے لیکن بھاگیں گے نہیں۔ کبھی بعض خاص باتوں پر بیعت کی، کبھی پوری شریعت پر، کسی سے اِس پربیعت کی کہ کسی سے کوئی چیز مانگیں گے نہیں، اِس کا اَثر یہ تھا کہ صحابہ کرام میں کسی کا کوڑا گر جاتاتھا وہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو خود ہی اُتر کر اُٹھاتے تھے یعنی کسی کو اُٹھانے کے لیے نہیں کہتے تھے کہ کہیں یہ بھی سوال نہ ہو۔ مختلف جگہوں میں مختلف طریقوں سے قرآن و حدیث میں ذکر آیا ہے کہ نبی کریم ۖ نے بیعت کی کبھی کچھ چیزوں کے لیے کبھی پوری شریعت کے لیے۔ بیعت کوئی نئی چیز نہیں ہے قرآن واَحادیث میں بہت سے واقعات ذکرکیے گئے ہیں جن سے بیعت کا ثبوت ملتاہے رسول اللہ ۖ کے زمانے سے یہ سلسلہ اب تک چلا آرہا ہے۔