ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
قرار دیتے ہیں حالانکہ دونوں کی نمازوں میں اِتنا فرق ہے کہ اُس کا اَندازہ لگانا ناممکن ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضراتِ اہلِ تصوف اور اَربابِ طریقت کی اصطلاحات کوبھی شرعی اصطلاحات نہ قرار دیں اور لٹکنے کے بجائے ''تدلّی '' کے وہ درجہ مراد نہ لیں جواہلِ طریقت کی اصطلاح میں مراد ہوتا ہے۔ حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَمَرَاتِبُ الدُّنُوِّ وَالتَّدَلِّیْ وَمَا کَنَی بِقَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ بِمَا ھُوَ اَدْنٰی مِنْہُ دَرَجَاتُ قُرْبٍ لِلْعَھْدِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیْ تَجَلِّیَاتِہ سُبْحَانَہ یُدْرِکُہُ الصُّوْفِیْ وَمَنْ لَّمْ یَذُقْ لَمْ یَدْرِ وَقَدْ ذَکَرُوْا ھٰذِہِ الدَّرَجَاتِ فِیْ کُتُبِ التَّصَوُّفِ فِیْ کَلِمَاتِھِمْ اَکْثَرَ مِمَّا تُحْصٰی ۔ ١ دُنُوّ(قریب ہونا) تَدَلِّیْ یا قَابَ قَوْسَیْنِ یا اَدْنٰی مِنْہُ تقرب اِلی اللہ اور تجلیاتِ خداو ندی کے درجات ہیں جن کو صوفی جانتا ہے اور پہچانتا ہے مگر جس کو یہ ذوق ہی نہ ہو وہ اِن درجات کو پہچان ہی نہیں سکتا اور حضراتِ اہلِ تصوف نے اپنے ملفوظات میں اِن کا تذکرہ اِتنی مرتبہ کیا ہے کہ اُس کی کوئی گنتی نہیں ہوسکتی، اِس تفسیر کے لحاظ سے اِس آیت کا مصدق بھی معین ہو گیا جس کا ترجمہ یہ ہے : ''وہ تھا اُفقِ اعلیٰ پر '' ٢ یعنی محمد ۖ اپنی اِستعداد اور صلاحیت کے سب سے بلندمرتبہ پر تھے۔ پھر دُنُوْ، تَدَلِّیْ اور قَابَ قَوْسَیْنِ کے مراتب پر فائز ہوئے۔ حضرت شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ اپنی شاعرانہ زبان میں اِس بلند ترین مقام کی طرف اِشارہ فرما رہے ہیں : شبے بر نشست اَز فلک بر گزشت بتمکین و جاہ اَز ملک در گزشت چنان گرم در تیہ قربت براند کہ در سدرہ جبرئیل اَز اُو باز ماند بدو گفت سالار بیت الحرام کہ اے حامل وحی برتر خرام ١ تفسیر مظہری ج ٩ ص ١٠٥ ٢ وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی