ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
ہم مادّے کے گھروندے میں بند ہیں، ہمارا قیاس ہمارا خیال ہمارا علم غرض جو کچھ ہمارے پاس ہے اُس کا دائرہ اُس گھروندے سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور جس کے ماحول کا تذکرہ ہے وہ مادّے سے بہت بہت مقدس بہت پاک۔ اے برتر اَز قیاس و خیال و گمان و وہم وز ہرچہ گفتہ اَندو شنیدیم و خواندہ ایم ١ پس جب اُس برتر وبالا کی باتیں ہوں گی تو لامحالہ اُن میں اِجمال ہی ہوگا۔ ہمارے ناقص الفاظ میں تفصیل کی گنجائش کہا ں ہے اور یہ بھی اُس وقت جب ہمارے ناقص الفاظ استعمال کیے جائیں اور اگر وہاں کے الفاظ بولے جائیں تو ہم اِتنا بھی نہ کہہ سکیں، شاید یہ مقطعاتِ قرآنی یعنی الم حم الر وغیرہ وہاں کی زبان کے الفاظ ہیں جن کے سمجھنے سے فہمِ انسان قاصر ہے اور حضراتِ مفسرین یہی کہہ دیتے ہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمُرَادِہِ ۔ (٢) دیدار نہ ہو سکنا، کھلی ہوئی بات تھی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام سے دو لفظوں میں کہہ دی گئی ( لَنْ تَرَانِیْ ) تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتے، مگر یہاں فرمایا گیا ہے (مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی ) نہ نگاہ مڑی، نہ حد سے آگے بڑھی،اِس سے پہلے فرمایا گیا ہے(مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی) جھوٹ نہ دیکھا دل نے جو دیکھا۔ اور اگر '' کَذَّبَ '' (ذال پر تشدید) والی قرأت لی جائے تو مطلب یہ ہے کہ آنکھوں نے جو کچھ دیکھا دل نے اُس کی تصدیق کی تکذیب نہیں کی۔ مگر کیا دیکھا ! ایک مرتبہ اور دیکھا ! ! کس کو دیکھا ! ! ! وہ سخت قوتوں والا زور آور کون ہے ؟ جس کا تذکرہ پہلے ہوا، کیا دل بھی دیکھتا ہے ؟ دل کی آنکھوں نے کیا دیکھا ؟ دیدۂ چشم سے کیا نظر آیا ؟ قائم کون ہوا ؟ اُفق ِاعلیٰ پر کون تھا ؟ اللہ میاں تھا ؟ ؟ ؟ وہ تو لامکاں ہے ! پھر اُفق ِاعلیٰ پر کیسے ! قرین کون ہوا ؟ تدلی کس کی ہوئی ؟ ١ اے (وہ ذات) جوقیاس خیال وگمان سے برتر ہے اورہر اُس چیز سے برتر ہے جو لوگوں نے کہاہم نے سنا اور پڑھا ہے ۔