ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
بنائی ہوئی نہیں ہے بلکہ وہ خود آسمان اور زمین کی بنانے والی ہے اور میں اُن میں سے نہیں ہوں جو اُس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے ہیں۔ '' یہ اِبتدائی مشاہدات حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے تھے جن سے وہ اِس نتیجہ پر پہنچے کہ قابلِ پرستش صرف ایک وہ ہے جو اِن سب پابند و قابلِ تغیر چیزوں سے بالا ہے، جو اِن سب کا خالق و مالک ہے لیکن حضرت اِبراہیم علیہ السلام کو رُشدو و ہدایت اور دعوت اِلی اللہ کے مقامِ اعلیٰ پر پہنچانا تھا اُس مقامِ اعلیٰ کے بموجب یقین ِکامل، شرحِ صدر اور اطمینانِ قلب پیدا کرنا تھا تو اگرچہ تفصیل نہیں بتائی گئی مگر یہ بتادیا گیا کہ : (وَکَذٰلِکَ نُرِیْ اِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ لِیَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْقِنِیْنَ) ١ ''بادشاہت کے جلوے دکھادیے تاکہ (وہ اِستد لال کر سکیں) اور یقین رکھنے والوں میں سے ہوجائیں۔ '' حضراتِ مفسرین نے فرمایا ہے کہ حضرت اِبراہیم علیہ السلام کو اِسی دُنیا میں جبکہ وہ ایک چٹان پر رونق اَفروز تھے تمام آسمانوں کا عرشِ معلی تک اور تمام زمینوں کا تحت الثریٰ تک نیز جنت کا اور جنت میں اُن کے مقام و موقف کا مشاہدہ کرا دیا گیا تھا۔ (اِمام التفسیر حضرت مجاہد و سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما) (٣) نوعِ انسان کا قافلہ آگے بڑھا ،اِنفرادیت کے بجائے اِجتماعیت پیدا ہوئی، سماجی نظام بنے بادشاہتیں قائم ہوئیں، اُمراء ووزراء رُونما ہوئے، فوجیں منظم ہوئیں تو حضرت موسٰی علیہ السلام کو ضابطہ ٔ حیات اور ایک دستور دیا گیا جس کا نام ''تورات'' ہے جس کو بائبل کا عہد ِ قدیم کہا جاتا ہے حضرت موسٰی علیہ السلام کو ترقی پذیر اِجتماعی زندگی کے لیے دستور العمل عطاء فرمانا مقصود تھا تو اُن کی نبوت ورسالت کا آغاز اُس تجلی سے ہوا جو طور کی جانب وادی کے داہنے کنارے پر ہوئی تھی کہ ہرے بھرے درخت پر شعلہ بھڑک رہا تھا۔ ١ سُورة الانعام : ٧٥