ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
سے بھی زور دار الفاظ میں عرض کیا کہ وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاُحِبُّکَ اللہ کی قسم ! مجھے آپ سے محبت ہے حضور ۖ نے پھر فرمایا کہ اُنْظُرْ مَا تَقُوْلُ دیکھو کیا کہہ رہے ہو ! اُنہوں نے تیسری دفعہ بھی زور دے کر محبت کے دعوے کو دہرایا۔ صحابی نے یہ سمجھا کہ شاید رسول اللہ ۖ کو میرے مُحِبْ ہونے میں شک ہے اِس لیے قسم کھائی،اِس کے بعد آقائے نامدار ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ اِنْ کُنْتَ صَادِقاً فَاَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا اگر تم سچے ہو تو تم ''فقر'' کے واسطے تیار رہو اور فرمایا لَلْفَقْرُ اَسْرَعُ اِلٰی مَنْ یُّحِبُّنِیْ مِنَ السَّیْلِ اِلٰی مُنْتَھَاہُ ١ یعنی مجھ سے محبت رکھنے والے کی طرف فقر اِتنی تیزی سے آتا ہے جیسے رَو(سیلاب) اپنی منزل پر(نشیب کی جانب) جاتا ہے گویا فقرو غربت عام طورپر اللہ و رسول کے محب اور محبوب لو گوں میں پایا جاتا ہے، اللہ کے نیک بندے فقر (ناداری) پر فخر کر تے ہیں اور اِسے محبوب سمجھتے ہیں۔ ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ جس دن اُن کو کھانا میسر نہ آتا تو بہت خوش ہوتے، یہاں تک کہ بچوں کوسمجھا رکھا تھا کہ اگر گھر میں فاقہ ہو (کھانے کے لیے کچھ نہ ہو) تو کسی کو بتانا نہیں چاہیے اور خوش رہنا چاہیے کیونکہ جب کھانے کو کچھ نہیں ملتا تو اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتے ہیں ! کہتے ہیں کہ کوئی صاحب ایک روز اِسی بزرگ کے گھر گئے دیکھا تو بچے بہت خوش ہیں ہنستے ہیں کھیلتے ہیں اور آپس میں ایک دُوسرے سے کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سے بہت خوش ہیں کیونکہ آج ہمارے گھر میں فاقہ ہے۔ غرض یہ کہ اَحادیث میں فقراء و غرباء کی بہت فضیلت آئی ہے اور اُن کی قدر اور اِحترام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے مگر ہاں یہ فضیلت اور بلندی ہر فقر کو میسر نہیں بلکہ اُن فقراء کو نصیب ہے جو اپنے فقر پر صبر کرتے ہیں اور ہرحال میں اپنے خالق کا شکر اَدا کرتے ہیں۔ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ (بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ١٧مئی ١٩٦٨ئ) ض ض ض ١ مشکوة شریف کتاب الرقاق رقم الحدیث ٥٢٥٢