ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
(١) خواتین کو عملاً وراثت سے عام طورپر محروم رکھاجاتاہے اِس کے سد ِ باب کے لیے مستقل قانون بنا یا جائے۔ (٢) بعض علاقوں میں خواتین کواُن کی مر ضی کے خلاف نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے اِس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور اِسے قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ (٣) بیک وقت تین طلاقیں دینے کوقابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے اور ایسی دستاویز لکھنے والے نو ٹری پبلک اور و ثیقہ نویس کو بھی شریک ِجرم قرار دیا جائے۔ (٤) قرآنِ کریم کے ساتھ لڑکیوں کے نکاح کی مذموم رسم کا سد ِ باب کیا جائے۔ (٥) جبری وٹہ سٹہ یعنی نکاحِ شغار کو قانونًا جرم قرار دیاجائے۔ (٦) عو رتوں کی خر ید و فروخت اور اُنہیں میراث بنانے کے غیر شرعی رواج اور رُسوم کاقانونی سدِباب کیاجائے۔ آخر میں اِس اَمر کی طرف توجہ کر لینی بھی ضروری ہے کہ ہمارے ملک اور ہمارے معاشرہ میں جہاں خواتین فاقوں سے خودکُشی کر تی ہیں ،حالات کے تحت ٹی بی کا شکار ہوتی ہیں، صحت تعلیم خوراک اورچھت کی بنیادی سہو لیات سے محروم ہیں، ہسپتال کے در وازوں پر دم توڑتی نظر آتی ہیں ،اِن کے لیے تو کوئی بینر لے کر باہر نہیں آتا لیکن جب عورت کے تحفظ کے لیے مغربی ممالک کی اِمداد اپنے منظور ِ نظر کارکنان تک پہنچتی ہے تو وہ خواتین کی ہمدردی کا نعرہ لے کر آگے آگے آجاتے ہیں۔ اِس کی کیا وجہ ہے ؟ ع کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے