ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
(٨) خواتین کی شکایات کی تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پرو ٹیکشن کمپنی بنائی جائے گی جبکہ مصالحت کے لیے سینٹرز بھی قائم کیے جائیں گے۔ (٩) گھر یلو تشدد کے مر تکب شخص کو اَسلحہ خریدنے اور اَسلحہ لائسنس سے دستبردار ہو نا پڑے گا۔ (١٠) پروٹیکشن، ریزیڈینس اور مونیٹری آرڈر کی ایک سے زائد مرتبہ حکم عدولی پر دو سال قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ اَدا کرناہوگا۔ (١١) ڈسٹرکٹ پرو ٹیکشن اَفسر کو متاثرہ خواتین کی شکایت پر گھر میں داخل ہونے کی اِجازت ہو گی (١٢) مرد نان ونفقہ سے اِنکار کرے تو عدالت اُس کی تنخواہ میں سے کٹوتی کر سکے گی۔ (١٣) جس خاتون پر تشدد کی درخواست موصول ہو اُس کی تفصیلات ویب سائٹ پر جاری کی جائیں گی۔ اِس بناء پر پیش کردہ بل کو'' تحفظ ِنسواں بل'' کہنے کے بجائے ''تحفظ ِعصیاں بل ''کہا جائے تو بجا ہے۔اِس بل میں اِس طرح کی اور بھی کئی چیزیں شامل ہیں جو اِسلامی اَحکام سے اِنتہائی متصادم ہیں۔ اَولًا تویہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ آئین ِ پاکستان میں خلافِ اِسلام قوانین بنانے کی گنجائش نہیں ہے اِس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ قانون آئین ِ پاکستان کے خلاف ہے۔ ثانیاً یہ کہ اِن اُمور پر عمل در آمد سے ہمارا خاندانی نظام بری طرح متاثر ہوگا ۔ ثالثاً یہ اُمور مرد وزن کے مابین مناقشت اور نفرت پیداکرنے والے ہیں حالانکہ اِسلام نے مردوزن کے باہمی تعلق کو محبت و مودّت کا مظہر قرار دیاہے۔ اِن اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ قانون اور اِس جیسے دیگر قوانین کی پشت پناہی لبرل طبقہ کر ر ہا ہے جو یو رپین ممالک کا مقلد ِ محض ہے اور یہ طبقہ ایسامعا شرہ اور نظام مُلک عزیز میں لانا چاہتا ہے جو مغرب کے قدم بقدم ہو ۔ حکومت ِ پاکستان کوہمارا مشورہ ہے کہ اگر وہ واقعی پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عملی پیش رفت کرنا چاہتی ہے تو اِسے مندر جہ ذیل قانونی اِقدامات کرنے چا ہئیں :