ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُوًا ج اُولٰئِکَ لَھُمْ عَذَاب مُّھِیْن ) (سُورہ لقمان : ٦) ''اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں تاکہ اُن کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں اور اُس کا مذاق اُڑائیں ،اِن لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔'' حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ اِس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں (لَھْوَالْحَدِیْثِ ) کے معنٰی اور تفسیر میں مفسرین کے اَقوال مختلف ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت اِبن عباس اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم کی ایک روایت میں اِس کی تفسیر گانے بجانے سے کی گئی ہے۔ (رواہ الحاکم و صححہ البیہقی فی شعب وغیرہ) جمہور صحابہ وتابعین اور دیگر مفسرین کے نزدیک (لَھْوَ الْحَدِیْثِ ) عام ہے تمام اُن چیزوں کے لیے جواِنسان کواللہ کی عبادت سے غفلت میں ڈال دیں، اِس میں غنا اور مزا میر (مو سیقی اور آلاتِ موسیقی) بھی شامل ہیں اور بیہودہ قصے کہا نیاں بھی۔ اِمام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب ''الا دب المفرد'' میں اور اِمام بیہقی رحمة اللہ علیہ نے اپنی ''سنن'' میں (لَھْوَالْحَدِیْثِ) کی یہی تفسیر اِختیار کی ہے اِس میں فرمایا کہ لَھْوَالْحَدِیْثِ ھُوَالْغِنَائُ وَاَشْبَاھُہ یعنی (لَھْوَالْحَدِیْثِ)سے مراد گانا اور اُس سے مشابہ دُوسری چیزیں ہیں (یعنی جواللہ کی عبادت سے غافل کر دیں)۔ ( معارف القرآن ج ٧ ص ٢٠۔ ٢١ ) اِس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت علامہ آلوسی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نضر بن حارث مشر کینِ مکہ میں سے ایک بڑا تاجر تھا اور تجارت کے لیے مختلف ملکوں کا سفر کر تا تھا، وہ ملک ِ فارس سے شاہانِ عجم وغیرہ کے تاریخی قصے خرید کر لایااور مشر کین سے کہا کہ محمد تمہیں قومِ عاد و ثمود وغیرہ کے واقعات سناتے ہیں، میں تمہیں اُن سے بہتر رستم اور اِسفندیار اور دُوسرے شا ہانِ فارس کے قصے سناتا ہوں۔ ( رُوح المعانی ج ١١ ص ٦٧)