ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اِسلام نے خواتین کو کون کون سے بنیادی حقوق دیے ہیں جس معاشرہ میں حضور اکرم ۖ تشریف لائے اُس زمانے میں خواتین پر جومظالم ڈھائے جاتے تھے آج ہم اُن کا تصور بھی نہیں کر سکتے وہ مظالم آپ ۖ کے تشریف لانے سے ہی ختم ہوئے ، چند مظالم ذکر کیے جاتے ہیں۔ اُس زمانے میں عورت کی حالت یہ تھی کہ (١) اِسے وراثت میں سے کچھ نہیں ملتا تھا، عر بوں نے یہ اُصول بنا لیا تھاکہ وراثت کا مستحق صرف وہ ہے جو گھوڑے پرسوار ہو اور دُشمنوں کا مقابلہ کر کے اُس کا مالِ غنیمت جمع کرے ، آپ ۖ نے اِس ظلم کومٹا کر عورت کو وراثت میں حق دار قرار دیا۔ (٢) زمانۂ قبل اَز اِسلام میں مرد، عو رتوں کی جان و مال کااپنے آپ کومالک سمجھتے تھے، عورت جس کے نکاح میں آگئی وہ اُس کی جان کو بھی اپنی مِلک سمجھتاتھا۔ (٣) بعض اَو قات بیوی کا کوئی قصور نہ ہونے کے باوجود مرد اُسے لٹکائے رکھتا تھا، نہ اُس کے حقوق اَدا کرتا نہ طلاق دیتا۔ (٤) بعض اَوقات یوں ہوتا تھا کہ اگر شو ہر مر گیا ہے تواُس کے ورثاء اُس کی بیوہ کو کسی دُوسری جگہ نکاح نہیں کرنے دیتے تھے۔ (٥) مرد مرجائے تو عورت کی عدت پورے ایک سال کی ہوتی تھی، یہ آپ ۖ نے ختم کرکے صرف چار مہینے دس دن مقرر کی۔ (٦) گزشتہ زمانہ میں جنگوں میں عو رتوں کو بے دریغ قتل کر دیا جا تا تھا، آپ ۖ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔ (٧) موجودہ رائج طریقہ ٔ نکاح کے علاوہ جاہلیت کے نکاح کے دیگر تین طریقے بھی رائج تھے ہر طریقہ نہایت شرمناک اور اِنسانیت سے گرا ہوا تھا آپ ۖ نے ظالمانہ طریقوں کو ختم کر کے نکاح کا نہایت باعزت اور آبرومندانہ طریقہ باقی رہنے دیا۔