ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
''حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اُس کو دی گئی ہے ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا، حاکمِ وقت بھی ذمہ دار ہے اُس سے اُس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا، مرد اپنے اہلِ خانہ کا ذمہ دار ہے اُس سے اِس بارے میں پو چھا جائے گا،عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور بچوں کی ذمہ دار ہے اُس سے اِس بارے میں پوچھا جائے گا، غلام (آج کے دور میں نوکر) مالک کے مال کا ذمہ دار ہے اُس سے اِس بارے میں پو چھا جائے گا، اَلغرض ہر آدمی ذمہ دار ہے اُس سے اُس کی ذمہ داری کے بارے میں پو چھا جائے گا۔ '' ماں باپ کی طرف سے اَولاد کے لیے کسی مادّی تحفے کے بجائے سب سے اَعلیٰ اور بیش بہا اِنعام یہی ہے کہ اُن کی تر بیت مثالی ہو، وہ سیرت و اَخلاق کے بلند مر تبے پر فائز ہوں، اپنے کر دار اور اَدب و آداب میں نمایاں ہوں۔ اِرشاد ِ نبوی ہے : اَیُّوْبُ بْنُ مُوْسٰی، عَنْ اَبِیْہِ، عَنْ جَدِّہ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ: ( مَا نَحَلَ وَالِد وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ ) (جامع الترمذی ج ٤ ص ٣٣٨ ) ''رسول اللہ ۖ نے فرمایا کسی باپ نے اپنی اَولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ِ اَدب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔'' دین ِ اِسلام نے والدین کوایک اور نہایت ہی اَحسن اَنداز میں یہ بات سمجھا ئی ہے کہ اَولاد کی تربیت نہ صرف دُنیا میں اُن کے کام آئے گی بلکہ مرنے کے بعد بھی اِس عمدہ تربیت کا فائدہ والدین کو پہنچتا رہے گا، اِرشادِ نبوی ہے : عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہ اِلاَّ مِنْ ثَلَاثَةٍ : اِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ ، اَوْعِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہ ، اَوْوَلَدٍ صَالِحٍ یَدعُوْلَہ۔ (مسلم شریف کتاب الوصیة رقم الحدیث ١٦٣١)