ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
کیا جائے ،اُن پر کوئی حملہ کرے تواُن کا دفاع ہمارا فرض ہے اور خود اُن کواُن کی طاقت اور بر داشت سے زیادہ کوئی تکلیف نہ دی جائے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک صاحب کو محصول وصول کرنے کے لیے(تحصیلدار) مقرر کیا تو اُن کو ہدایت فرمائی کہ محصول کے سلسلے میں سردی یا گرمی کا لباس فروخت نہ کرنا اور اُن کی گزر کا جو غلہ ہے اُسے نہ فروخت کرنا، کھیتی کے لیے بھی مویشی کی ضرورت ہے وہ نہ فروخت کرنا، مار پیٹ یاکھڑا کرنے کی سزا نہ دینا، خانگی ضرورت کا سامان فروخت نہ کرنا، کیونکہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ ضروریات سے جو فاضل ہو اُس کو وصول کریں۔ یہ صاحب جن کومقرر کیا تھا اُنہوں نے عرض کیا کہ حضرت میں نرمی بر توں گا تو جیسے جا رہا ہوں ویسے ہی واپس آجاؤں گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، چنانچہ یہ صاحب گئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہدایات کی پابندی کی مگر جیسے گئے ویسے ہی واپس آگئے۔ ١ جب سیّدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اِن سے فرمایا تھا اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے پیشر و بزرگ (صدیق ِ اکبر رضی اللہ عنہ) اور آنحضرت ۖ کا تقرب حاصل کریں تو آپ کاکرتہ پیوند لگا ہونا چاہیے، تہبند اُونچا رہے، چپل اور مو زوں میں ٹکی لگی ہو، دُنیا کی آرزو نہ ہو اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤ۔ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو راتوں کو رو یا کر تے تھے کہ دُور دراز گو شوں میں خدا کی مخلوق پھیلی ہوتی ہے جن کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور مجھے اُن کی حالت کی خبر نہیں، خدا کوکیا جواب دُوں گا۔ بالا ختصار یہ ہونا چاہیے مسلمان بادشاہوں کا کردار ۔ ض ض ض (جاری ہے) ١ مگر اِس جیسے عمل کے غیر معمولی سیاسی فوائد جو حکومت ِ وقت کو حاصل ہوئے کسی پر مخفی نہیں ہیں۔محمود میاں غفرلہ