ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
مالی فرائض کی بنیاد یہ ہے کہ بخل، خود غرضی، حرص وطمع جیسی بری خصلتوں سے نفس ِمومن پاک ہو، یہ نفس کی خباثت ہے کہ دولت و ثروت کی محبت قومی اور ملی ضرو رتوں سے آنکھ بند کر دے ،یہی وجہ ہے کہ مالی فرائض کو اِسلام نے ''زکوة ''کاعنوان دیاہے زکوة کے معنٰی ہیں ''پاکی'' آنحضرت ۖ کے لیے حضرت حق جل مجدہ کااِرشاد ہے : ''(اے پیغمبر ۖ ) اِن لو گوں کے مال سے صدقہ (زکوة) و صول کرو کہ (بخل اور طمع کی برائیوں سے ) پاک کرو اور اِن کا تز کیہ کرو (اِن کو سدھاؤ اور اِن کی تربیت کرو کہ وہ ہمدر دیٔ خلق ِ خدا، سیر چشمی، سخاوت اور اِمدادِ باہمی وغیرہ کے عادی ہوجائیں اور یہ باتیں اُن کی طبیعت ِ ثانیہ بن جائیں) اور اِن کے لیے دُعائے خیر کرو، بلا شبہ آپ کی دُعا اِن کے لیے آسود گی ہے جس سے اِن کے دلوں کو سکون ملتا ہے (راحت پہنچتی ہے)۔'' (سورۂ توبہ : ١٠٣) مختصر یہ کہ تمام فرا ئض جو حکومت کے فرائض سمجھے جاتے ہیں اُن کو اہلِ اِیمان کی شخصی اور ذاتی فرائض قرار دیا ہے۔ اِسلامی تعلیم کے بموجب اگر اِن فرائض کااِحساس ہوگا تو اُس کا مبارک نتیجہ یہ ہوگا کہ حکومت کوئی چیرہ دست طاقت نہ ہو گی جو قانون کے ذریعہ اپنی چیرہ دستی کا مظاہرہ کرے بلکہ حکومت ذریعہ تعاون ہوگی، نظامِ حکومت اِمدادِ باہمی کاایک رابطہ ہوگا جس میں ہر فریق دُوسرے کا مدد گار، دُعا گو اور اِحسان مند ہوگا، قوم اپنے سر براہ اوراُس کے عُمَّال کی اِحسان مند اور شکر گزار اِس لیے ہو گی کہ اِن کے ذریعہ سے اُس کے ذاتی فرائض صحیح طور پر بحسن وخوبی اَنجام پا رہے ہیں۔ سر براہ اور اُس کے کارپرداز ١ قوم کے شکر گزار اِس لیے ہوں گے کہ قوم کے تعاون نے اُن کی ذمہ داری کی مشکلات کو آسان کردیا ہے۔ آیات ِ مذکورہ با لا کاایک اِشارہ اِس طرف بھی ہے کہ تز کیہ اور اِطمینان و سکون کی یہ رُوح جو آنحضرت ۖ کے دورِ مبارک و مسعود میںکار فرما ہے قومی کا رکنوں، ذمہ داروں اور قوم کے اَفراد میں اِسی طرح کارفرما رہے۔ ١ کارکن