ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
کے ساتھ کرنے کی صرف حسرت ہی دِل میں رہ جاتی ہے ۔ دُوسرے اِس وجہ سے کہ حدیث شریف میں جوانی کی عبادت کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور جوانی کے زمانے کی عبادت پر بڑے فضائل اورخوشخبریاں سنائی گئی ہیں۔ تیسرے اِس وجہ سے کہ اگر اِخلاص اورنیک نیتی کے ساتھ صحیح طریقہ پر حج کیا جائے تو تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ وہ اِنسان کے دِل ودماغ میں ایک خا ص اِنقلاب پیدا کرتا ہے جس سے اِنسان کے دِل میں نرمی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ خصوصی تعلق اورآخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں اِنسان کے لیے گناہوں ، جرائم اور بد عنوانیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے اور دل ودماغ کی اِس تبدیلی کی ضرورت بڑھاپے کی بہ نسبت جوانی میں زیادہ ہوتی ہے۔ ایک تو اِس لیے کہ جوانی میں نفس وشیطان کا غلبہ اور گناہوں کے اِرتکاب کی طاقت اِنسان میں زیادہ ہوتی ہے ، مشہور ہے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے اور بڑھاپے میں تو اِنسان کے اَعضاء ویسے ہی جواب دے دیتے ہیں اور بہت سے گناہوں سے بچنا اُس کے لیے خود بخود آسان ہو جاتا ہے ، قبر میں پیر لٹک جانے کے اورگناہوں سے پیٹ بھر لینے کے بعد توویسے بھی نیکیوں کی طرف توجہ ہونے لگتی ہے۔ دَر جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری وقتِ پیری گرگِ ظالم می شود پرہیزگار کہ بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے ، پیغمبروں کا شیوہ یہ ہے کہ جوانی میں ظلم اور گناہ سے توبہ کی جائے۔ دُوسرے اِس لیے اگر حج کی برکت سے جوانی میں ہی کسی کو ہدایت مِل جائے تو پھر آنے والی زِندگی میں خیر کی اُمید زیادہ ہوتی ہے اور بڑھاپے تک کے لمبے عرصہ کی زندگی کا رُخ اَچھائی کی طرف مڑجاتا ہے لہٰذا حج فرض ہو جانے کے بعد جوانی ہی میں بڑھاپے کا اِنتظار کیے بغیر جلد اَز جلد حج کا فریضہ سراَنجام دینا چاہیے۔