ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
''غیر سودی وِنڈوز'' کھولنے کا تجربہ کررہے ہیں اور عالمی ماہرین ِمعاشیات اب اِس بات پر زور دے رہے ہیں کہ سودی نظام کے بے پناہ اِستحصال سے نجات پانے اور دُنیا میں معاشی مساوات کی فضاء قائم کرنے کے لیے غیر سودی نظام رائج کرنا ضروری ہے۔ اِسلامی نظامِ معیشت کامیاب اور فائدہ مند ہے : چنانچہ ''مسٹر نریندر کمار'' جن کا شمار ملک کے گنے چنے معاشی تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں میں ہوتا ہے، وہ ایک کثیر الاشاعت ہندی روزنامہ ''لوک مت سماچار'' ناگپور کے ٣٠نومبر ٢٠٠٣ء کے شمارہ میں اپنے حیرت اَنگیز تجزیہ میں ملک کی معاشی صورتِ حال کا حل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''دُنیا کے تمام ماہرین ِمعاشیات کا ماننا ہے کہ اگر آج کی تاریخ میں اِسلام کے نظامِ معیشت کو عملی طور سے نافذ کیا جائے تو قرض میں جکڑی ہوئی اورسراپا قرضوں میں ڈوبتی دُنیا کو بچایا جاسکتا ہے کیونکہ دُنیا کی تمام معاشی تنظیموں نے گہرے غور وفکر کے بعد یہی جائزہ لیا ہے کہ دُوسری جنگ ِعظیم کے بعد دُنیا میں غریبی اور اَمیری کے درمیان کا جو فاصلہ ہے اُس کی سب سے بنیادی وجہ سود ہے۔ اِسلامی طریقۂ زندگی اور معاشی اِنتظام کی بنیاد اِس فلسفہ پر ہے کہ دُنیا میں جتنے بھی لوگ ہیں سب حقوقِ مساوات میں برابر ہیں، اِسلام نے دولت کو ایک جگہ جمع رہنے پر روک لگائی ہے، اِسلام میں زکوٰة کا نظم واِنتظام اور وراثت کی تقسیم کا اُصول مال ودولت کو ایک جگہ جمع نہیں رہنے دیتا، اِس طرح دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی ہے اور دُنیا میں غربت وبھکمری کی بنیادی وجہ دولت اور اَسبابِ زندگی کی غیر منصفانہ تقسیم ہی ہے، پھر اِسلامی اُصولوں پر جو کاروبار مشارکت ومضاربت کی صورت یا دُوسری شکلوں میں پایا جاتا ہے وہ مغربی تجارت وکاروبار کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ، سادہ، کامیاب اور فائدہ مند ہے کیونکہ سود سے آزاد اور نفع ونقصان میں برابر سرابر کی ساجھے داری سے پیسہ کی قوتِ خرید بڑھ جاتی ہے اور چیزوں کی قیمتوں میں