ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
کے متعلق اُس سے کچھ سوالات کرتے ہیں، وہ اگر سچا اِیمان والا ہے تو صحیح صحیح جواب دے دیتا ہے جس پر فرشتے اُس کو خوشخبری سنادیتے ہیں کہ تو قیامت تک چین وآرام سے رہ۔ وہ اگرمومن نہیں ہوتابلکہ کافر یا صرف نام کامسلمان منافق ہوتا ہے تو اُسی وقت سے سخت عذاب اور دُکھ میں مبتلا کر دیا جاتا ہے جس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے یہی برزخ کی منزل ہے جس کا زمانہ مرنے کے وقت سے لیکر قیامت تک کاہے۔ اِس کے بعد دُوسری منزل ''قیامت اور حشر'' کی ہے۔ قیامت کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اللہ کے حکم سے یہ ساری دُنیا ایک دم فنا کردی جائے گی (یعنی جس طرح سخت قسم کے زلزلوں سے علاقے ختم ہوجاتے ہیں اِسی طرح سے اُس وقت ساری دُنیا درہم برہم ہوجائے گی اور سب چیزوں پر ایک دم فنا آجائے گی) پھر عرصہ دراز کے بعد اللہ تعالیٰ جب چاہے گا سب اِنسانوں کو پھرسے زندہ کرے گا اُس وقت ساری دُنیا کے اگلے پچھلے سب اِنسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے اور اُن کی دُنیوی زندگیوں کا پورا حساب ہوگا، اِس جانچ اور حساب میں اللہ کے جو بندے نجات اور جنت کے مستحق نکلیں گے اُن کے لیے جنت کا حکم دیا جائے گا اور جو ظالم اور مجرم اللہ کے عذاب اور دوزخ کے سزاوار ہوں گے اُن کے لیے دوزخ کا حکم سنادیا جائے گا، یہ منزل مرنے کے بعد دُوسری منزل ہے جس کا نام قیامت اور حشر ہے۔ اِس کے بعد جنتی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں چلے جائیں گے جہاں صرف آرام اور چین ہوگا اورایسی لذتیں اور راحتیں ہوں گی جو اِس دُنیا میں کسی نے دیکھی سنی نہ ہوں گی،اور دوزخی دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے جہاں اُن کو بڑے سخت قسم کے عذاب اور دُکھ ہوں گے اللہ تعالیٰ سب کو اِس سے اپنی پناہ میں رکھے، یہ'' دوزخ اور جنت'' ہی مرنے کے بعد تیسری اور آخری منزل ہے اور پھر لوگ ہمیشہ ہمیشہ اپنے اَعمال کے مطابق جنت یا دوزخ ہی میں رہیں گے۔ مرنے کے بعد کے متعلق اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے اور خاص طور سے آخری پیغمبر سیّدنا محمد مصطفی ۖ نے جو کچھ بتلایا ہے اور قرآن و حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اُس کاخلاصہ یہی ہے جو