ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
پھر وہ جھاگ جو دَرحقیقت کھوٹ ہوتا ہے اَلگ ہوجاتا ہے اور خالص دھات الگ نکل آتی ہے، کھوٹ کے لیے نابود ہوجانا ہے اور خالص دھات کے لیے باقی رہنا۔'' سیّدنا حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ العزیز اِس آیت کی وضاحت اِن الفاظ میں فرماتے ہیں : '' لابدست کہ در ہر جنس خیرو شر باشد ہم چنیں لا بدست کہ در آدمیاں نیکو کاران وبدکاران باشند، لیکن نیکو کاران را مستقرے سازو و کار ایشاں را پیش می رود وبدکاران را ہلاک میکند۔'' (فتح الرحمن) مختصر یہ کہ حق و باطل کا معرکہ مسلسل رہتا ہے، باطل سینہ تان کر سامنے آتا ہے لیکن اُس کا یہ زور چند روزہ ہوتا ہے پھر وہ ختم ہو کر بسا اَوقات بے نام و نشان ہوجاتا ہے اورحق جو سراسر نفع ہوتا ہے وہ اپنی سادگی کے ساتھ دائم و قائم رہتاہے۔ غور فرمائیے آنحضرت ۖ کادور ِمبارک یعنی وہ دور جس میں حقیقت ِ محمدی کا آفتاب بِلا کسی حجاب کے کائناتِ اَرضی پر ضیا پاش تھا، وہ مبارک دور بِلاشبہ پوری کائنات کی آنکھ کا تارا اور جسم ِ اِنسانیت کا قلب ِبیدارتھا چنانچہ اِرشادہوا : بُعِثْتُ مِنْ خَیْرِ قُرُوْنِ بَنِیْ آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا حَتّٰی کُنْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِیْ کُنْتُ فِیْہِ ۔ (بخاری شریف کتاب المناقب رقم الحدیث ٣٥٥٧) ''یعنی اَولادِ آدم کی سعادت مندیوں (یا بالفاظِ دیگر) نمود ِحق کے دور جو درجہ بدرجہ ترقی کرتے رہے، عروج کے اُس نقطہ پر پہنچے کہ خود مرکزِسعادت واِرشاد سیّد الانبیاء رحمة للعالمین صاحب ِلولاک کاظہور ہوا۔ حَتّٰی کُنْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِیْ کُنْتُ فِیْہِ ۔'' کیا کہنا ہے اُس دور کی سعادت مندی کا ! اَندازہ لگانا مشکل ہے فلاحِ اِنسانی اور سعادتِ رُوحانی کے اُس عروج کا جو اُس دورِ مسعود میں اُس کو حاصل ہوا ، مختصر طور پر یہی کہا جا سکتاہے کہ حق اپنے عروج کے آخری نقطہ پرپہنچ گیاتھا اِسی لیے اُس کو ''خیرالقرون ''فرمایا گیا۔