ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
ور حضرت عمر رضی اللہ عنہم بھی ہمراہ تھے نبی اکرم ۖ نے فرمایا جو شخص قرآنِ مجید کو اِس طرح سے پڑھنا چاہے جس طرح کہ نازل ہوا تھا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرا ء ٰ ت کے مطابق پڑھے پھر جب عبداللہ بیٹھ کر دُعا کرنے لگے تو حضور ۖ نے فرمایا ہاں اَب دُعا کرو جو مانگو مِل جائے گا تو اُنہوں نے یہ دُعا کی : اے اللہ ! میں تجھ سے ایسا اِیمان مانگتا ہوں جس کے بعد اِرتداد نہ آئے، ایسی نعمتیں مانگتا ہوں جو منقطع نہ ہونے پائیں اور جنت الخلد کے اعلیٰ مقام میں تیرے نبی ۖ کی رفاقت مانگتا ہوں....الخ ۔( الاستیعاب ص ٣٧٢ بحوالہ کا روانِ جنت ) ٭ صاحب ِمشکوة اپنی کتاب الاکمال فی اَسماء الرجال میں تحریر فرماتے ہیں : وَشَھِدَ لَہ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ بِالْجَنَّةِ ۔ اِبن ِ مسعود کے لیے حضور اکرم ۖ نے جنت کی گواہی دی۔ ٭ ایک حدیث میں آپ ۖ نے اِرشاد فرمایا : رَضِیْتُ لِاُمَّتِیْ مَارَضِیَ لَھَا ابْنُ اُمِّ عَبْدٍ مجھے اپنی اُمت کے لیے وہ بات پسند ہے جو اِبن ِاُمِ عبد اُن کے لیے پسند کریں۔ (اَعلام النبلائ) قرآن اور اِبن مسعود : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اَقدس ۖ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآنِ کریم سناؤں ،میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں آپ کو کیا قرآن سناؤں، قرآن تو خود آپ پر نازل ہوا ہے۔ آپ ۖ نے فرمایا میں دُوسرے کی زبان سے سننا چاہتاہوں ۔ کہتے ہیں کہ میں نے سورہ نساء سے پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ ( فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَھِیْدٍ ) تک پہنچ گیا توآپ نے مجھے روک دیا اور فرمایا بس کافی ہے،میں نے آپ کی طرف دیکھا آپ ۖ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (بخاری شریف رقم الحدیث ٤٥٨٣) ٭ ایک دِن دارِ اَرقم میں مشور ہوا کہ ابھی تک مشرکین ِ مکہ کو قرآنِ مجید بلند آواز سے نہیں سنایا گیا اُنہیں قرآنِ مجید سنانا چاہیے اِس کام کے لیے اپنے آپ کو کون پیش کرے گا ؟ حضرت اِبن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ خدمت سر اَنجام دینے کے لیے اَپنا نام پیش کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ