ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
جلیل القدر صحابہ کرام یہاں تشریف لائے۔ علامہ اِبن سعد فرماتے ہیںکہ ستر بدری اورتین سو بیعت ِرضوان میں شریک ہونے والے صحابہ کرام کوفہ میں تشریف فرما ہوئے تھے۔ عبدالجبار بن عباس فرماتے ہیں کہ میرے والد نے محدث ِمکہ حضرت عطاء رحمة اللہ علیہ سے مسائل دریافت کیے تو اُنہوں نے پوچھا تمہارا مکان کہاں ہے ،عباس نے کہا کوفہ میں ،حضرت عطاء نے تعجب سے فرمایا تم مجھ سے مسائل دریافت کرتے ہو حالانکہ مکہ میں علم کوفہ سے ہی آیا ہے۔ حضرت علی کے نزدیک علمائِ کوفہ کا مقام : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا کوفہ میں ورود ہوا یہ وہ زمانہ ہے کہ اِبن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامذہ وہاں پر لوگوں کو فقیہ بنانے میں مصروف تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جامع مسجد کوفہ میں آکر دیکھا تو چار سو کے قریب دواتیں رکھی ہوئی تھیں، طلباء کتابت علم میں مصروف تھے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا لَقَدْ تَرَکَ ابْنُ اُمِّ عَبْدٍ ھٰؤُلاَئِ سُرُجَ الْکُوْفَةِ یعنی اِبن اُمِ عبد (اِبن مسعود) نے اِن لوگوں کو کوفہ کا چراغ بنادیا۔ اِمام اَحمدبن حنبل کے نزدیک کوفہ کا مقام : ایک دفعہ اِمام اَحمدبن حنبل رحمة اللہ علیہ سے اُن کے صاحبزادے عبداللہ نے دریافت کیا کہ آپ کی رائے میں طالب علم کو کیا کرنا چاہیے ،آیا کہ ایک ہی اُستاذ کی خدمت میں رہ کر اُسی سے حدیثیں لکھتا رہے یااُن مقامات کا رُخ کرے جہاں علم کاچرچا ہے اوروہاں جا کر علماء سے اِستفادہ کرے۔ اِمام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا ''وہ سفر کرے اور کوفہ، بصرہ ، مدینہ اور مکہ والوں سے اَحادیث لکھے۔'' اِمام بخاری کے نزدیک کوفہ کا مقام : اِمام بخاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں میں شام، مصر اورجزیرہ دو مرتبہ گیا، بصرہ چار مرتبہ گیا